کوئی خواجہ سرامرضی سے سیکس نہیں کرتا،صاحبہ جہاں

ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراء  کو اقلیت کے بجائے تیسری جنس تسل   کیا جائے
نام : عمران مقبول
عرف: صاحبہ جہاں
رہائش : بہاولپور
عہدہ: بانی و صدر (فوکس سٹار جینڈر آرگنائزیشن)

خاندانی پس منظر:

والد صاحب پیشے کے اعتبار سے زمیندار ہیں۔ خاندان چار بھائیوں اور ایک بہن پر مشتمل ہے۔ ایک بھائی اور بہن وفات پاچکےہیں۔ بوڑھے والدین کی کفالت کی ذمہ داری صاحبہ نے سنبھال رکھی ہے۔زمینی حقائق ڈاٹ کام سے صاحبہ جہاں کی نشست کا احوال.

سوال: خواجہ سراء  ہونے کی علامات کس عمر میں ظاہر ہونا شروع ہوئیں؟

ٹرانس جینڈر جینیاتی بگاڑ  ہے۔ علامات پیدائش کے فوری بعد ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔  جیسے جیسے بچہ چلنے پھرنے  کے قابل ہونے لگتا ہے اسکا رجحان لڑکیوں کی چیزوں میں بڑھنے لگتا ہے۔ گڑیوں سے کھیلنا، دوپٹہ اوڑھنا ، لڑکیوں جیسی حرکات  کرنا    اسکا معمول بن جاتاہے۔صاحبہ کے ساتھ بھی ایسا ہوا جس کی وجہ سے والدین پریشان رہتے تھے۔

سوال: لڑکیوں جیسی حرکات کرنے پر کس قسم کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا تھا؟

لڑکیوں جیسی حرکات کرنے پر سارے بچپن بدترین ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی رہیں۔ کبھی مار اپیٹا جاتا ، کبھی کتوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا توکبھی کنوئیں میں الٹا لٹکا دیا جاتا تھا۔

سوال: حصول تعلیم میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

سکول جانے کی عمر تک خواتین والی بہت سی عادات پروان چڑھ چکی تھیں۔ والد صاحب  علاقے کی نامی گرامی شخصیت تھےاس وجہ سے  لوگ چھیڑچھاڑ سے ڈرتے تھے۔ بھائی اور کزن اپنے ساتھ سکول  لے جایا کرتے تھے، کلاس میں بھی اپنے ساتھ بٹھایا کرتے تھے۔بچوں کے تنگ کرنے پر بھائی اور کزن انکی خوب پٹائی لگایا کرتے تھے۔ پرائمری تک تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے حاصل کی۔ پھر بہاول پور  شہر کے ایک سکول میں داخلہ لے لیا۔ ایف اےتک تعلیم حاصل کی لیکن امتحانات پاس نہیں کر پائیں۔

سوال:  گھر چھوڑنے پر  کیوں مجبور ہوئیں؟

گھر والوں پر خاندان اور علاقے کے لوگوں کا شدیددباؤ تھا، جسے نفرت اور تشدد کی صورت میں صاحبہ پر اتارا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ظلم اور جبر کا یہ سلسلہ مزید بڑھتا چلا گیا۔ مرحوم  بہن نے انھیں مشورہ دیا  کہ یا تو یہ خودکشی کر کے مصیبتوں سے نجات حاصل کرلیں یا  پھرگھر چھوڑ کر چلی جائیں۔

سوال:خواجہ سرا ءکمیونٹی میں کیا سوچ کر داخل ہوئیں ؟

تشدد کے ماحول سے تنگ آکر اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے روابط قائم کرنا شروع کر دیئے۔خواجہ سراؤں نے  انھیں ڈیرے پر رہنےکا مشورہ دیا۔صاحبہ سوچ رہی تھیں کہ ڈیرے  پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی اور یہ مزے سے  خاتون  کیے روپ میں بقیا  زندگی گزاریں گیں۔لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف تھی۔

سوال: بہاول پور واپس کیوں آئیں؟

گرو انھیں بہاولپور سے لاہور لےآئے ۔ڈانس پر بھر پور توجہ دیا کرتی تھی۔مختصر سے عرصے میں بہترین ڈانسر بن گئی۔ شادی بیاہ کے فنکشنز میں انکے ڈانس کو بہت مقبول ہونے لگے۔ والدین کی یاد خوب ستاتی  تھی انھیں یاد کر کے  رویا کرتی تھی۔ دوسال بعد خدا نے کچھ ایسے اسباب دیئے کہ  لاہور سے دوبارہ بہاولپور واپس آگئیں اور چند سالوں میں شاگرد سے گرو بن گئیں۔

سوال: کیا آپ کو سیکس ورک پربھی مجبور کیا جاتا رہا ہے؟

صاحبہ کہتی ہیں کہ کوئی خواجہ سرا ءاپنی مرضی سے سیکس ورک نہیں کرتا بلکہ حالات ایسا کرنے پر مجبور کردیتےہیں۔انھیں زبردستی سیکس ورک پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ سیکس ورک سے نفرت کی وجہ سے ڈانس میں اتنا نکھار پیدا کر دیا کہ ڈانس ہی انکی شناخت بن گیا۔

سوال: اپنے اندر لیڈر پیدا کرنے میں کیسے کامیاب ہوئیں؟

مختلف ڈیروں پر رہنے کی وجہ سے  آئے روز کسی نئی ٹرانس جینڈرسے ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔ لڑکیاں اکیلے میں ایک دوسرے سے اپنی زندگی کی کہانی شیئر کیا کرتی تھیں۔ لوگوں کی درد بھری داستانیں سن کر خوب رویا کرتیں تھیں۔
2008 میں پنجاب میں دو خواجہ سراؤں کا قتل ہوا،  ان میں سے ایک کا تعلق فیصل آباد سے تھا جو صاحبہ کی بہت اچھی دوست بھی تھیں ۔شخصیت میں لیڈر شپ پہلے سے  ہی موجود تھی۔ اس  واقعے کے  بعد اسے باہر آنے کا موقع مل گیا۔ آئے روز کی  ناانصافیوں   کے بڑھتے واقعات نے انھیں احتجاج  اور قانون کا دروازہ   کھٹکھٹانے پر مجبور کر دیا.

سوال: این جی او کس سن میں بنائی ؟

2009-10 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں خواجہ سراؤں کو این جی اوز بنانے کی اجازت مل گئی ۔جس سےلوگوں کو خواجہ سراؤں کے نام پر پیسہ بنانے کا موقع مل گیا۔خواجہ سراؤں کی تصویریں اور ویڈیوز دکھا کر خوب فنڈز بٹورے جانے لگے۔ لوٹ کھسوٹ کے اس سلسلے  کو روکنے کیلئے  صاحبہ کو خود میدان میں اترنا پڑا ۔ 2015 میں فوکس اسٹار جینڈر کی بنیاد رکھی   ۔  پھراسے پنجاب چیریٹی آن لائن اور سوشل ویلفیئر سے رجسٹرڈ کروایا گیا۔

سوال: فوکس سٹار جینڈر کن امور پر کام کر رہی ہے؟

فوکس سٹار جینڈر خواجہ سراؤں، خواتین، بچوں، افراد باہم معذوری سے لے کر ہر  اس مسئلے پر آواز اٹھاتی ہے جسکا تعلق انسان اور انسانیت سے  جڑاہو۔

سوال: کیا مردم شماری کے نتائج  خواجہ سراؤں کےدرست اعداد شمار کو ظاہر کرتےہیں؟

مردم شماری  کے نتائج میں خواجہ سراؤں کی آبادی دس ہزار ظاہر کی گئی ہےجسے کمیونٹی درست تسلیم نہیں کرتی۔ غلط اعداوں شمار پالیسی سازی کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کیئے جاتے  ہیں۔ صاحبہ چاہتی ہیں  خواجہ سراؤں کے  ڈیروں، اڈوں اور گھروں کو رجسٹرڈ کر کے دوبارہ سے اعداد و شمار اکٹھے کیئے جائیں۔

سوال: خواجہ سراؤں کی کتنی اقسام ہیں؟

روایات میں خواجہ سراؤں کی چار اقسام بیان کی گئی ہیں پہلی مخنث، دوسری خنثہ،  تیسری خنثی اور چوتھی خنثہ مشکل بیان کی گئی ہے۔ پہلی قسم میں   زنانہ خصویات کی حامل ہے، دوسری قسم  میں مردانہ عادات پائی جاتی ہیں، تیسری قسم  مردانہ اور زنانہ  دونوں  کی خوبیوں  مجموعہ ہے جبکہ چوتھی قسم میں  ہاوی جنس کی نشاندہی مشکل ہے۔

سوال: کیا ٹرانسجینڈر اقلیت ہیں؟

اقلیت کسی بھی مذہبی، علاقائی، یا لسانی گروپ کو تصور کیا جاتاہے  جبکہ ٹراجینڈر کسی صورت بھی اقلیت نہیں ہیں، بلکہ تیسری جنس ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی انسان زندگی کے کسی بھی حصے میں ٹرانس جینڈر ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت کوئی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال: جینڈر ایکس شناختی کارڈ کے فوائد اور نقصانات بیان کریں؟

جینڈر ایکس شناختی کارڈز کے  اجراء سے  خواجہ سراؤں  کو شناخت  تو ملی ،لیکن تمام سلامی ممالک نے خواجہ سراؤں کیلئے  ویزے بند کر دیئے۔ ہر خواجہ سراء کے دل میں خدا کا گھر دیکھنےکی خواہش پائی جاتی ہے ۔ حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اس اہم ترین مسئلے کو اسلامی ممالک کے ساتھ اٹھائے۔  خواجہ سراؤں کوخدا کے گھر کی سیکورٹی  پر مامور کیا جا سکتا ہے تو حج اور عمرے کیلئے ویزہ کیوں نہیں دیا جاسکتا۔

سوال: کیا وطن عزیز کی کسی سرکاری یا نجی  ہاؤسنگ سکیم میں خواجہ سراؤں کیلئےبھی پلاٹ مختص کیئے جاتے ہیں؟

وطن عزیز کی کسی سرکاری یا نجی ہاؤسنگ  سکیم میں خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے پلاٹ مختص نہیں کیئے جاتے جو کہ افسوس ناک اور غیر انسانی عمل ہے۔ اس قسم کے اقدامات  کمیونٹی   مایوسی  اور انسیکورٹی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔

سوال: آپ ایل-جی-بی-ٹی-کیو تحریک کے خلاف کیوں ہیں؟

خواجہ سراء پیدا ہونا خدا کی مرضی سے  ہےجبکہ ہم جنس پرستی اپنی مرضی سے اپنائےہوئے طرز زندگی کا نام ہے۔ خواجہ سراء کمیونٹی کےمسائل ہم جنس پرستوں سے بہت مختلف ہیں ۔ اقوام متحدہ سمیت مختلف مغربی ممالک میں قانون سازی کےعمل میں ہم جنس پرستوں کو  خواجہ سراؤں پر فوقیت دی جاتی ہے، جس سے ٹرانس کمیونٹی شدید ناخوش ہے۔

سوال: خطے کے دوسرے ممالک کی ٹرانس کمیونٹی کے حالات وطن سے بہتر کیوں ہیں؟

تعلیم اور معاشرتی رویوں کو اسکی بڑی وجہ قرار دیتی ہیں۔ ہمسایہ ممالک میں شرح خواندگی اور معیار تعلیم وطن عزیز سے بہت بہتر ہے۔ تعلیم انسان کو انسان بنانے میں  اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہمسایہ ممالک میں  خواجہ سراء کمیونٹی  مختلف شعبہ زندگی میں کام کرکے ملکی ترقی میں اہم کردار رہی ہے۔

سوال: آجکل دنیا  کے عظیم ترین مفکروں، شاعروں، ادیبوں ، دانشوروں اور سائنسدانوں میں خواجہ سراؤں کے نام کثرت سے سامنے آرہے ہیں وجہ کیا ہے؟

خواجہ سراءحساس اور نظریاتی طبعیت کے مالک ہوتے ہیں۔ خدا نے انھیں عورتوں اور مردوں دو کی طرح سوچنے کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں  اور دانشوروں کی فہرست میں خواجہ سراؤں کے نام کثرت سے سامنے آ رہے ہیں۔

سوال: خواجہ سراء بھیک مانگ کر، ناچ گا کر اور جسم فروشی کر کے اپنا پیٹ پال لیتے ہیں لیکن جرائم میں ملوث نظر نہیں آتے کیوں؟

خواجہ سراء بہت حساس طبعیت کے مالک ہوتے ہیں یہ  خود تو ہر قسم کی سختی برداشت کر لیتے ہیں لیکن کسی دوسرے کو تکلیف نہیں دیتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خواجہ سراء کمیونٹی میں جرائم کی شرح نہایت کم نظر آتی ہے۔

سوال: کیا خواجہ سراء کمیونٹی پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے؟

خواجہ سراؤں کے بچے نہیں ہوتے اس لیئے ان میں عام لوگوں کی طرح  مال  و  دولت  اکھٹی کی  خواہش نہیں پائی جاتی۔ کرپشن وطن عزیز کی ترقی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔ اگر خواجہ سراؤں کو  قابلیت کے مطابق ہر دفتر  میں ملازمت دے دی جائے تو کرپشن پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
اگر خواجہ سراؤں کو  تعلیم کے زیور سے آراستہ کر دیا جائے تو یہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جیسا کہ دوسرےممالک میں کر رہے ہیں۔

سوال: نوجوان خواجہ سراؤں کے حوالے کس قسم کے فوری اقدامات کی ضرورت ہے؟

خواجہ سراء بچے کی پیدائش کےساتھ ہی مانیٹرنگ کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے۔ تعلیم  کو ہر خواجہ سراء کا بنیادی  انسانی حق  قرار دیا جائے،  خواجہ سراء بچوں کوتعلیم  دینےکے حوالے سے خاندان  اور ڈیروں کو  سختی پابند کیا جائے۔ خواجہ سراؤں  کے حقو ق کے  حوالے سے آگہی  کو عام کیاجائے تاکہ ٹرانس بچے باآسانی عام سکولوں سے تعلیم حاصل کر سکیں۔ فاصلاتی تعلیم میں نئے اور جدید کورسزکو شامل کرکے ٹرانس کمیونٹی کیلئے مزید آسانیاں پیدا کی جائیں۔اسکے علاوہ آسان اقساط پر قرضے،  تکنیکی کورسز، نوکریوں میں کوٹہ اور معاونت فراہم کی جائے۔

سوال: بزرگ خواجہ سراؤں کے حوالے کیاکیا جانا چاہیئے؟

بزرگ  اور بیمار خواجہ سراؤں کو ذیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑھاپا انھیں غربت اور مفلسی کی جانب دکھیل دیتا ہے۔ہسپتالوں میں ڈاکٹر  علاج کرنے اور داخلہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں ، اسی کشمکش میں  سسکتے سسکتے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیئے کہ بزرگ خواجہ سراؤں کو سوشل سیکورٹی ،ای-او-بی-آئی کی طرز پر پیشن ، ہیلتھ کارڈ اور شیلٹرز ہومز فراہم  کرے۔

سوال : دلبرداشتہ ہوتی ہیں تو کیا کرتی ہیں؟

مایوسی اور افسردگی کو اپنے اوپر ہاوی  نہیں ہونے دیتی۔ غم اور غصے کی حالت میں ڈانس کر تی ہیں اور  خداسے مدد طلب کرتی ہوں ۔

سوال: فارغ وقت میں کیا کرتی ہیں؟

اکثر خواجہ سراؤں  نے جانور پا  ل رکھے ہیں فارغ وقت انھی کے ساتھ گزارتی ہیں یا پھر علاوہ ٹی-وی دیکھ کر، کتابیں پڑھ کر، کھانا پکا کر، سلائی کڑاہی کر کے ٹائم پاس کر لیتی ہیں، فارغ وقت میں شاعری کرنا اور پڑھنا پسند ہے۔

سوال: کھانےمیں کیا پسند کرتی ہیں اور کیا چیز اچھی بنا لیتی ہیں؟

دیسی کھانے پسند کرتی ہیں، بازار کے کھانے اور فاسٹ فوڈز سے پرہیز کرتی ہیں۔ دیسی ، انڈین اور چائنیز کھانے بنانے میں خاصی مہارت رکھتی ہیں۔

سوال: اپنی کمیونٹی کیلئے کیا کرنا چاہتی ہیں؟

صاحبہ کہتی ہیں کہ انسانی تاریخ میں بہت سے خواجہ سراء بادشاہ گزرے ہیں ۔ جن کے انصاف اور سخاوت  کی داستانوں کو آج بھی سنہرے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔  مغلیہ ادوار میں بادشاہ اپنی بیویوں اور بچوں سے ذیادہ خواجہ سراؤں پر اعتبار کیا کرتے تھے۔ صاحبہ گزرے ہوئے اس دور کو واپس لانا چاہتی ہیں۔خواجہ سراؤں کا انکا کھویا ہوا مقام واپس دلانا چاہتی ہیں۔

سوال: نوجوان  ٹرانس جینڈرز کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟

نوجوانوں بہنیں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں، ہر وقت کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں لگی رہیں۔اپنا قیمتی وقت ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر ضائع مت کریں۔

Comments are closed.