مکّار دشمن کی پسپائی

شمشاد مانگٹ

وزیراعظم عمران خان کے بیرونی دنیا کے طوفانی دورے خوب رنگ جما رہے ہیں، سعودی عرب،چین، متحدہ عرب امارات کے کامیاب دوروں کے بعد عمران خان ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے معاشی ہاتھ ملانے کیلئے گئے تھے، جسکا ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھرپور جواب دیا بلکہ ملائیشیا کی خاتون اول نے وزیراعظم عمران خان کا ہاتھ پکڑ کر تصویر بنوانے کی خواہش بھی ظاہر کی جسے پاکستانی وزیراعظم نے فوری قبول کر لیا۔

وزیراعظم عمران خان کو انکے مخالفین امریکی صدر ٹرمپ سے اکثر تشبہیہ دیتے ہیں لیکن اگر دونوں شخصیات کے اخلاقی پہلو کو دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ سے انکی اپنی اہلیہ بھی جھٹک کر ہاتھ چھڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں جبکہ عمران خان سے اپنے اور غیر سبھی ہاتھ ملانے اور ”ہتھ جوڑی“ کرنے کی جستجو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بہرحال وزیراعظم عمران خان کو ملکی اور غیر ملکی محاذوں پر پے درپے کامیابیاں مل رہی ہیں اور ان کامیابیوں پر ناکامی کی راکھ متحدہ اپوزیشن بڑی کامیابی سے ڈال رہی ہے۔ عمران کان کے ابتدائی 96دنوں میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ اپوزیشن کا پراپیگنڈہ حکومت کی کارکردگی پر بھاری ہے۔

جہاں تک عمران خان کی کامیابیوں کا معاملہ ہے تو وہ اب تک آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض لیئے بغیر دوست ممالک سے فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سعودی عرب اور چین نے پاکستان کی فوری ضرورت کو تقریباً پورا کر دیا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کا تعاون سونے پر سہاگہ بتایا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کو ماضی کی طرح دبانے اور مرعوب کرنے کی ناکام کوشش کی۔ گزشتہ دس برس میں امریکی صدورپر بڑی مہارت کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں کو دباوٴ میں لاکر اپنا ”الّو“ سیدھا کرنے میں کامیاب رہے تھے، حالانکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اپنا”الّو“ سیدھا کرنے کی بجائے پاکستان کو ”الّو“ بنانے پر زیادہ یقین رکھتا ہے مگر اس بار امریکی صدر اور پینٹاگان نے پاکستانی لہجے میں تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھانے کی بجائے ”فوری سوری“ کا سہارا لیکر اپنی جان چھڑا لی ہے۔

عمران خان نے امریکی صدر کی ”ٹوئٹری“ دھمکیوں کو ترکی بہ ترکی جواب دیکر ٹھنڈا کر دیا ہے۔ لیکن امریکیوں کا فوری دب جانا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتاہے۔ چونکہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ امریکیوں نے پاکستان سے کبھی نہ سننا گوارا نہیں کیا۔ عمران خان جیسے جرأت اظہار اور انکار پر لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو سے امریکیوں نے خوفناک انتقام لیئے۔ ایشیا اور مشرق وسطی میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے امریکیوں نے کئی بار بے رحم کاروائیاں کیں۔ اس لئے امریکی صدر کی”ٹوئٹ زدہ“ دھمکی اور پھر پینٹاگان کا معذرت خواہا نہ رویہ امریکہ کی عیّاری اور مکّاری کا ہو سکتا ہے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ پاکستان نے امریکہ کیلئے بے شمار قربانیاں بھی دیں لیکن ان سب کے باوجود پاکستان امریکہ کا کبھی بھی ”ہم پلہ“ دوست نہیں رہا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ضرور ہے لیکن امریکہ سے لڑ نہیں سکتا۔ پوری دنیا میں طاقت کے بدلتے ہوئے توازن کے باعث پاکستان امریکیوں سے ٹوئٹ کی حد تک آنکھیں دکھا سکتا ہے لیکن امریکہ سے جنگ نہ لڑ سکتا ہے اور نہ ہی جنگ شروع کر سکتا ہے البتہ امریکہ پر کوئی آفت آن پڑے تو اس دوران پاکستان اپنی سابقہ” کسریں“ بھی نکال سکتا ہے۔

امریکی صدر کے ”ٹوئٹری حملے“ کو عمران خان نے جوابی ٹوئٹری حملے کے ذریعے ناکام بنا کر پاکستان میں اپنے حامیوں کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ کیا ہے۔ لیکن امریکیوں کی عیّاری کو دیکھتے ہوئے اب عمران خان کو زیادہ محتاط رہنا ہوگا۔ اسی طرح عمران خان نے بھارت کے ساتھ بھی کرتاپور بارڈر کھولنے کا معاہدہ کر کے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں بھارتی سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو ایسی محبت کی ”جپھی“ ڈالی کہ پورا بھارت دنگ رہ گیا۔ نوجوت سنگھ سدھو نے بھارت میں وزیراعظم عمران خان کی کرتاپور ہ بارڈر کھولنے پر آمادگی کو اس قدر شدت سے پیش کیا کہ بھارت کے شدت پسند لوگ بھی دفاع کرنے پر مجبور ہو گئے۔

کرتاپورہ بارڈر کھولنے کی پاکستانی تجویز نے سکھوں کی محبتوں کا جھکاوٴ پاکستان کی طرف کر دیا تھا اور بھارت کے حکمران یہ محسوس کرنے لگے تھے کے خالصتان کی تحریک پھر سے زندہ نہ ہو جائے؟ اس لئے بھارت نے بھی سکھ برادری کو رام کرنے کیلئے کرتارپورہ بارڈر کھولنے پر آمادگی کر دی ہے جو کہ پاکستان حکومت کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔

لیکن ماضی گواہ ہے کہ بھارت کے اس قسم کے فیصلے بھی وقتی دباوٴ سے بچنے کیلئے ہوتے ہیں جبکہ اندرون خانہ وہ پاکستان کی جڑیں کاٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ لہذا امریکیوں کا پسپا ہونا اور بھارت کا کرتاپورہ بارڈر کھول دینا وقتی ضرورت کے مطابق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو ان دونوں سے آنکھیں بند نہیں کرنا چاہئیں اور اپنے ہرطرح کے دفاع کیلئے ہروقت تیار رہنا چاہئے کیونکہ مکّار دشمن کی اچانک پسپائی کے بعد ہوش کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے۔

Comments are closed.