مقدس سفر اور شیطان کا پڑوس

شمشاد مانگٹ

اﷲ تعالٰی کے خصوصی فضل و کرم سے حج کی چوتھی بار سعادت حاصل کر کے دوبارہ اپنے دفتری امور کی انجام دہی کا کام شروع کر دیا ہے ۔ پروردگار نے پہلی بار 2009 ءاور پھر 2010 میں والدہ مرحومہ کے ساتھ حج کی اس عظیم سعادت سے بہرہ مند کیا تھا ۔

اگرچہ اس وقت کے چیف جسٹس محترم افتخار محمد چودھری نے اپنے ازخود نوٹس کے ذریعے اس حج پر کئی سوالات اٹھا دیئے تھے ۔ جسٹس (ر)افتخار محمد چودھری کے اس دور میں یا تو پی سی او جج مشہور تھے اور یا پھر ہر طرف ”پی سی او حج “ کا تذکرہ ہوا کرتا تھا۔جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری کی عدالت میں براہ راست ایک درخواست کے ذریعے میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے خصوصی تعاون سے کئے گئے۔

حج کی شرعی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے ذریعے سماعت کی جائے اور ملک کے نامور وکلاءکو عدالتی معاون مقرر کر کے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے شرعی یا غیر شرعی قرار دے دیا جائے ۔

چونکہ اس وقت کی عدلیہ کو پیپلزپارٹی کی حکومت سے خدا واسطے کا بیر تھا اس لئے اس کے نزدیک حج کی شرعی حیثیت کا تعین کوئی معنی نہیں رکھتا تھا بلکہ وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور بحریہ ٹا¶ن کے چیف ایگزیکٹو ملک ریاض حسین کو زچ کرنا تھا ۔ اس بات میں وزن اس لئے بھی زیادہ تھا کہ اس برس بھی سپریم کورٹ کے دو ملازمین سپریم کورٹ کے فنڈز پر حج کی سعادت کے لئے گئے تھے مگر جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری اس اہم نقطے کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے ۔

حیرت کی بات تو یہ تھی کہ سپریم کورٹ کے سرکاری فنڈز پر حج کرنے والے ملازمین کا حج اس وقت ملک کی اعلٰی ترین عدلیہ کے نزدیک شرعی تھا اور وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے تعاون سے حج کرنے والے حاجیوں کا حج غیر شرعی قرار دیا جا رہا تھا۔ یعنی حلال و حرام کے تقاضے اور شرائط چند فرلانگ پر موجود الگ الگ تھے ۔ حلال و حرام کا اصول صرف اس حد تک محدود نہیں تھا بلکہ جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری کے صاحبزادے ارسلان افتخار نے ملک ریاض کے ”کھاتے “ سے اپنی دوست کے ساتھ جو بیرون ملک ”رنگ رلیاں “ منائیں وہ بھی جائز تصور کی گئیں اور اسی ملک ریاض نے حاجیوں کے سفری اخراجات برداشت کئے تو اسے حرام سمجھا گیا ۔

بہرحال ہمارے ہاں آجکل جس طرح ایک مسلک کے مولوی کے لئے جو حرام ہے دوسرے مسلک کا مولوی اسے حلال سمجھتا ہے اسی طرح عدالتوں میں بیٹھے ہوئے ہمارے معزز جج صاحبان بھی انسان ہیں اور کچھ جج صاحبان جسے حلال سمجھتے ہیں اور دوسرے جج صاحبان اسی کو حرام کا خیال کرتے ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں ہر مسلک کی اپنی اپنی شریعت ہے اور ہر عدالت کا اپنا اپنا معیار انصاف ہے ۔ ہماری بسوں ، ٹرکوں اور رکشوں پر ایک جملہ بہت بڑی تعداد میں لکھا ہوتا ہے یعنی ” پسند اپنی اپنی ، نصیب اپنا اپنا “ نئے پاکستان کی بنیاد تو ڈال ہی دی گئی ہے لہٰذا مقتدر قومی زبان کو ملک بھرکے ” ڈینٹرز پینٹرز“ کی کانفرنس بلا کر انہیں سمجھا دینا چاہئے اس جملے کو اب اس طرح تبدیل کر دیں ۔

” فتویٰ اپنا اپنا اور انصاف بھی اپنا اپنا “
اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے حاجیوں کے اجتماعی حج پر سوال اٹھا دیئے جانے کے بعد میں نے اﷲ تعالٰی سے ایک اور حج کی دعا مانگی جو قبول ہوئی اور 2015 ءمیں پروردگار نے مجھے اہلیہ سمیت اس عظیم سعادت سے نوازا۔ اس حج کے دوران میں نے اﷲ تعالٰی سے بار بار اپنے گھر کی زیارت کروانے کی آرزو کی تو 2018ءکے حج میں بیت اللہ شریف طلبی انہی دعا¶ں کی قبولیت ہو ہی۔ا

Comments are closed.