مطلوبہ سہولت میسر نہیں!

شمشاد مانگٹ

ملک میں سیاسی انتشار اور خلفشار بڑھتاجارہا ہے۔وزیراعظم عمران خان جب پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کر رہے تھے تو اپنے دیرینہ کارکنوں سے دور ہوگئے تھے اوراب وہ وزیراعظم بننے کے بعد اہم ترین پارٹی رہنماؤں اور اراکین اسمبلی سے بھی”فاصلہ“ کرچکے ہیں۔وفاقی دارالحکومت میں پی ٹی آئی کے کئے اہم ترین لوگوں کو خاکسار نے یہ گِلہ کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے اب رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔دو ماہ پہلے پارٹی کے مرکزی لوگ جس موبائل نمبرپر عمران خان سے رابطہ کرلیا کرتے تھے اب مسلسل موبائل کمپیوٹر سے خاتون ان اہم رہنماؤں کو پیغام دے رہی ہے کہ ”آپ کو مطلوبہ سہولت میسر نہیں ہے“۔

معاشی بہتری کے تمام دعوے ہوا ہو جانے کے باوجود وزیراعظم عمران خان ملک کی تقدیر بدل دینے کے نعرے لگا رہے ہیں۔حکومت کی کمزوریاں اب کھل کر اپوزیشن کے سامنے آچکی ہیں۔عمران خان جب ڈی چوک میں 126 دن کا دھرنا دئیے بیٹھے تھے تو انکے معاشی اور سیاسی مشیر مستقبل کی تدابیر کرنے کی بجائے صرف چاپلوسی اور خوشامد میں مصروف تھے اور عمران خان کو بتایا جارہاتھا کہ پی ٹی آئی کلین سویپ کرنے جارہی ہے۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے یہ بہتر ہوتا کہ عمران خان اسد عمر کو بنی گالہ طلب کرتے اور ان سے بازپرس کی جاتی کہ اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی تھا تو پھر انہیں(عمران خان) کو سیاسی تقاریر میں خودکشی کا دعویٰ کرنے سے کیوں نہیں روکا۔

ملک کی اکثریت اب بھی یہ سوچ رکھتی ہے کہ عمران خان اور انکی ٹیم کو کام کرنے کیلئے وقت ملنا چاہئے لیکن حکومت جس برق رفتاری سے”بدنامیاں“ سمیٹ رہی ہے اس سے اب اپوزیشن نے بھی محسوس کرلیا ہے کہ اس حکومت کی مخالفت کرنا بھی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ جو شخص خود ہی کنویں میں گرنے کا راستہ اختیار کرلے اسکی اصلاح کیلئے تدابیر کرنا یا اسکی سوچ پر تنقید کرنا بھی ایک مرض ہی ہوسکتا ہے۔

اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہوئی طاقتور مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل میں یہ سوچ زور پکڑتی جارہی ہے کہ موجودہ حکومت کیلئے ایسا تاثر پیدا کیا جائے کے متحدہ اپوزیشن حکومت کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے کیونکہ اپوزیشن کے سینئر رہنما اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ عمران خان اس وقت بپھرے ہوئے بیل کی طرح ہے ،لہٰذا اسکی زد میں آنے کی بجائے اسے دیوار سے ٹکرانے کا اہتمام کر دیا جائے۔اقتدار کی گلیوں کا پہلی دفعہ مزہ لینے والے عمران خان کے نادان ساتھیوں نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ان سے وہ دعوے بھی کروا دئیے جو ممکن ہی نہیں تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے دوماہ پہلے اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں50لاکھ گھروں کی تعمیر کے علاوہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا ایک وعدہ بھی کیا تھا لیکن گھروں کی تعمیر کیلئے اگرچہ انہوں نے گزشتہ روز افتتاحی تختی لگا کر عوام کو ”لولی پاپ“ تو دیدیا ہے لیکن اس حوالے سے سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ آشیانہ سکیم کے ذریعے چند ہزار گھروں کی تعمیر کا وعدہ کرنے والے اس وقت جیل میں”آشیانہ“ بنائے بیٹھے ہیں،اب عمران خان 50لاکھ گھر جب بنائیں گے تو پھر پتہ چلے گا۔

سید خورشید شاہ کی بات میں اس لئے بھی وزن ہے کہ انکی اپنی پارٹی روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر6مرتبہ اقتدار کا مزہ لے چکی ہے جبکہ عوام کو نہ روٹی میسر آئی اور نہ ہی تن پر کپڑا رہا اور مکان تو بہت دور کی بات ہے۔اس لئے وہ بجا طور پر جانتے ہیں کہ مکانات کی تعمیر کا وعدہ پورا کرنا کتنا مشکل ہے۔ عمران خان نے اپنے وعدے کی تکمیل کا آغاز کردیا ہے اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ اللہ کرے یہ منصوبہ کرپشن کی نظر نہ ہوجائے کیونکہ پاکستان ایسے منصوبوں میں کرپشن کی منڈی سمجھا جاتا ہے۔

نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے نگران وزیراعظم کے علاوہ بھی کئی لوگ ہوں گے اور ہماری بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ لوگ کام کرنے کے ماہر ہونے کی بجائے کام ”ڈالنے“ کے ماہر مانے جاتے ہیں۔

آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور راولپنڈی اسلام آباد میں قائم 109 نیم سرکاری ہاؤسنگ سوسائٹیاں کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ملک بھر میں اب تک ایک بھی ایسی ہاؤسنگ سوسائٹی سامنے نہیں آئی جس میں عوام کا پیسہ نہ لوٹا گیا ہو۔ لہذا عمران خان کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے ذریعے یہ ریکارڈ قائم کرنا ہوگا کہ یہ منصوبہ پاکستان کا واحد ہاؤسنگ پراجیکٹ ہوسکتا ہے جس میں کرپشن نہ ہو۔

عمران خان کی حکومت اس وقت متحدہ اپوزیشن کے علاوہ بیورو کریسی کی مزاحمت کا بھی سامنا ہے۔ پنجاب کے آئی جی کا تبادلہ ہو یا پھر ایس ایس پی اسلام آباد کی تقرری ہو‘ پی ٹی آئی حکومت کیلئے کافی سبکی ہوئی ہے۔ اسی طرح وزیر داخلہ کے حکم پر اہلکاروں کو معطل کرنے کی بجائے سی پی او راولپنڈی نے بھی بغاوت کردی۔ عمران خان کو اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے بیورو کریسی کے چند بڑوں کو عبرت کا نشان بنانا ہوگا وگرنہ یہ بغاوت روز ہوگی اور اپوزیشن اس کا بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔

وزیراعظم عمران خان پارٹی کے سرکردہ لوگوں سے بھی رابطے منقطع نہ ہونے دیں۔ ماضی میں اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے مخلص دوستوں سے دور کردیا گیا تھا۔ بنی گالہ ہاؤس چونکہ پہاڑوں پر واقع ہے اور اب سیکیورٹی کے باعث ہر راہنماء آسانی سے نہیں پہنچ سکتا اور ہیلی کاپٹر ہر پارٹی راہنماء کے پاس نہیں اس لئے ضروری ہے کہ عمران خان مخلص دوستوں کیلئے دل بھی کھولیں اور راستہ بھی کھولیں ۔ ایسا نہ ہو آج مخلص پارٹی راہنماؤں کو مطلوبہسہولت میسر نہیں ہے اور کل عمران خان کال کرین تو کمپیوٹر پر موجود خاتون انہیں یہ جملہ سنا دے کہ آپ کو بھی مطلوبہ سہولت میسر نہیں ہے۔

Comments are closed.