لفظی گولہ باری بند کر دیں

اداریہ کی موت،منہ میں مائیک ٹھونسنے کا رجحان

محبوب الرحمان تنولی

آزاد کشمیر میں حالیہ پرتشدد احتجاج ، اموات ، مطالبات ،راستوں کی بندشیں ، ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال، مظاہرین کی جانب سے پولیس پر حملے اورمتنازعہ نعرہ بازی۔

سب اب ماضی کا حصہ بن چکاہے ، بعض شرپسندوں کی جانب سے پاکستان اور افواج کے خلاف نعرہ بازی نے پاکستان میں بھی لوگوں میں اشتعال پیدا کیا تاہم جب 10 وفاقی وزرا نے جا کر آزاد کشمیر کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے کامیاب مزاکرات کئے اور ان کے مطالبات مان لئے تو پھرعملاً یہ بحث ختم ہوگئی۔

ہم نے دیکھا وہی لوگ جو تین دن قبل مشتعل ہو کر جارحانہ زبان استعمال کررہے تھے مطالبات پورے ہونے کے بعد کوہالہ کے قریب ایک بڑے اجتماع میں یہ فلک شگاف نعرے بھی لگا رہے تھے کہ ، "ہم ہیں پاکستانی  پاکستان ہمارا ہے”۔

اس احتجاج کے دوران جوں جوں سوشل میڈیا پر متنازعہ نعرہ بازی الفاظی پر پاکستان میں عوام  اور بعض صحافیوں کی جانب سے ردعمل سامنے آیااس پر ایکشن کمیٹی کے رہنماوں کی طرف سے یہ وضاحتیں بھی سامنے آئیں کہ یہ احتجاج پاکستان یا سکیورٹی فورسز کے خلاف نہیں ہمارے اپنے حقوق کےلئے اپنی حکومت کے خلاف ہے۔

متذکرہ بالاساری صورتحال کو دیکھتے ہیں ہمیں یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہونا چایئے کہ جب کوئی احتجاج کےلئے نکلتا ہے تو جہاں جہاں اسے مشکل پیش آتی ہے وہ اس کے خلاف بھی بولتاہے۔

اسلام آباد پولیس کے خلاف مظاہرین کے سلوک کی حمایت نہیں کی جاسکتی ، لیکن یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ جب آزاد کشمیر کی اپنی پولیس موجود ہے تو پھر اس فورس کو وہاں بھیجنے کی کیا ضرورت ہےجو صرف اسلام آباد کےلئے ہے۔

اس کے فالو اپ میں اسلام آباد پولیس نے نیشنل پریس کلب کے سامنے مظاہرین پر تشدد کرکے بدلہ لینے کی کوشش کی ، جب کہ اس دوران ایک اور ناخوشگوار تاریخ رقم کی جب اسلام آباد پولیس کے اہلکار نیشنل پریس کلب میں داخل ہوگئے اور صحافیوں پر بھی تشدد کیا، سٹاف کو بھی مارا پیٹا۔

گویا ان کوغصہ آزاد کشمیر میں ساتھیوں کے ساتھ سلوک پر تھا اور جواب یہاں نیشنل پریس کلب میں داخل ہو کر اور قانون ہاتھ میں لے کر دیا گیا۔

اگر متعلقہ افسران دانشمندانہ رویہ اپناتے تو نیشنل پریس کلب پرپولیس کاحملہ نہ ہوتا، اگر آپ نے بھی وہی راستہ اپنانا ہے اور قانون ہاتھ میں لینا ہے تو پھر پولیس اور آزاد کشمیر کے مظاہرین میں فرق کیا رہ جاتاہے؟ 

انھوں نے بھی قانون ہاتھ میں لیا اور آپ نے بھی ویسا ہی کیا، دوسرا قانون کے مطابق پولیس کسی کو جرم پر گرفتار کرسکتی ہے اس پر تشدد نہیں کرسکتی، کوئی اگرجرم کا مرتکب ہوا ہے تو اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہوتاہے۔

وطن عزیز میں پولیس کو سیاسی انتقام کےلئے استعمال کرنے کی روایت نے پولیس کا یہ کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ وہ خود قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں، یہ رویہ کسی مہذب ریاست میں کسی بھی طور حوصلہ افزا نہیں ہے.

یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، جوآج اقتدار میں ہیں کل اسی رویہ کا سامنا وہ بھی کریں گے، پولیس کو اخلاقیات سکھانے ، قانون کے دائرے میں رکھنے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

آزاد کشمیر میں مزاکرات کے بعد اعلامیہ کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر الٹرا محب وطن بننے والوں کو سمجھ آگئی ہو گی یہ احتجاج پاکستان یا ادارے کیخلاف نہیں تھا.

آپ محب وطن بن کر اسے پاکستان مخالف قرار دینے اور کشمیریوں سے حساب لے کر واپس بھیجنے ایسے بے تکی آرا دے رہے ہیں اور پڑوسی ملک یہ حوالے دے رہا ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے.

آزاد کشمیر کے لوگوں کیخلاف حکومتی جماعتوں کے حامی وہ وہ لوگ باتیں کر رہے ہیں جن کے 10 وفاقی وزراء اور رہنما مظفرآباد جا کر مزاکرات کر کے مطالبات مان کر آئے ہیں، کیا انھیں نہیں پتہ تھا کہ بعض ناعاقبت اندیش مظاہرین نے مخالفانہ نعرے بازی کی ہے.

احتجاج تو پاکستان کے اندر صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتیں، تنظیمیں افراد بھی کرتے ہیں اور اداروں کیخلاف یہاں بھی نعرے لگتے رہے ہیں جب کوئی ہجوم مشتعل ہو جاتا ہے تو پھر اسے کوئی لیڈر کنٹرول نہیں کرسکتا اور جذبات میں آکر مظاہرین فاول پلے بھی کر جاتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ غدار ہو جاتے ہیں یہ ہیٹ آف دی موومنٹ ہوتا ہے.

خاص طور پر ان احباب سے گزارش ہے کہ اگر آزاد کشمیر کا معاملہ سیٹل ہو گیا ہے تو اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے آپ کی مخالفانہ بیان بازی باہمی نفرت کو ہوا دے گی، اسی طرح آزاد کشمیر سے بھی اب کوئی بیان بازی نہیں ہونی چاہیئے.

عوامی تحریک ختم ہونے کے بعد اگر کوئی چند افراد یا گروپس کے ذریعے محب وطن بن کر سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پوسٹس کر رہا ہے تو وہ ملک وقوم کی کوئی خدمت نہیں کر رہا ہے بلکہ نفرت کو ہوا دے رہا ہے.

بعض کشمیری دوست بھی ان بے بنیاد خدشات کو ہوا دے رہے ہیں کہ کشمیری اب مختلف حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں مہاجر کشمیری کیلئے مشکلات ہیں، تو گزارش ہے جو کشمیری مقبوضہ کشمیر سے ہجرت پر مجبور ہو کر آزاد کشمیر یا پاکستان میں آباد ہوئے ہیں وہ کبھی اکیلے تھے نہ ہیں پاکستانیوں کی ہمدردیاں ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں ہم انھیں الگ نہیں سمجھتے.

جہاں تک آزاد کشمیر کی مہاجرین کی نشستوں کی بات ہے تو وہ سب گواہ ہیں ہمیشہ وہ جوڑ توڑ کا ہی سبب بنی ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ مرکز کی طرح وہاں بھی کبھی عوام کی مرضی سے حکومت نہیں بننے دی گئی اور استعمال ہونے والے چند خاندانوں نے سرکاری وسائل ملنے کی وجہ سے نظام ٹھیک ہونے ہی نہیں دیا، جب لوگ مایوس ہوتے ہیں تو پھر فرسٹیشن بھی انھیں متحد کر دیتی ہے.

اس لئے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اگر مرکزی حکومت نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے تو باقی وہ حضرات بھی دل بڑا کریں جن کے ہاتھ میں ککھ نہیں لیکن حساب ایسے مانگتے پھر رہے ہیں کہ جیسےسیاہ و سفید کے مالک ہیں، دانشمندی سے کام لیں یہ پاکستان سب کا ہے سب احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں. 

لفظی گولہ باری بند کر دیں

Comments are closed.