قحط الرجالی سے قحط سالی تک

شمشاد مانگٹ

مشکلات کا ایک بڑا سونامی تیزی سے پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جن رہبروں نے ان مشکلات کاتوڑ کرنا تھا وہ ”ذاتی مشکلات “ کے توڑ کے لئے بھاگ دوڑ کررہے ہیں ۔ مسلسل 3 5 سال سے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ رہنے والی مسلم لیگ (ن) کو سڑکوں اور پلوں کی مد میں ملنے والے کمیشن نے اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے حالانکہ اتنی ہی لاگت سے وہ پورے ملک میں چھوٹے چھوٹے ڈیمز کا جال بچھا کر اپنا کمیشن بھی لے سکتے تھے اور قوم کو تباہی سے بھی بچا سکتے تھے ۔ عالمی اداروں نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں آبی قلت خطرناک حدوں کو چھونے لگی ہے اگر رہبروں نے اس کا توڑ نہ کیا تو آئندہ دس برسوں میں پاکستان قحط کا شکار ہوجائے گا ۔رپورٹ کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاست دانوں کی توجہ آنے والے انتخابات اور سیاسی مسائل پر مر کوز ہے، ملک کے آبی ماہرین پانی کی قلت پر پریشان ہیں اور اس کے حل کے طریقے سوچ رہے ہیں۔کئی بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان تیزی سے ایک ایسی صورتِ حال کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں آنے والے وقتوں میں اسے شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کچھ ماہرین کے خیال میں پاکستان آنے والے سات برسوں میں پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتا ہے۔ کئی آبی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے توانائی اور آبی امور کے ماہر جہانزیب مراد کے مطابق اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کئے تو مستقبل میں ہم تباہی سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پانی کو ذخیرہ کرنے والے ڈیموں کی استعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ صرف ہم نے ایک ڈیم کی گنجائش کو بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن ہم نئے ڈیموں کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ کالا باغ ڈیم کو ہم نے سیاست کی نظر کر دیا ہے جب کہ بھاشا ڈیم میں کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے اس کے باوجود بھی ہم اس ڈیم کو نہیں بنا رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیم نہ بننے سے سب سے زیادہ نقصان سندھ اور جنوبی پنجاب کو ہوگا اور سندھ سے ہی سب سے زیادہ ڈیم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر سب سے پہلے ایک بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دے سکیں اور پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے بھی شروع کر سکیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بلین ٹری جیسے کئی منصوبے ہمیں شروع کرنے پڑیں گے لیکن ان منصوبوں کے نتائج فوری طور پر نہیں آئیں گے۔ فوری طور پر تو ہمیں ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم اس لئے بنایا نہیں جارہا کیونکہ اس میں ممکنہ طور پر بارہ برس لگیں گے جب کہ کوئی بھی حکومت پانچ سال سے آگے سوچنا نہیں چاہتی۔ اس معاملے میں ہمیں قومی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر سوچنا ہوگا۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر عرفان چوہدری کے خیال میں پاکستان میں بارش کا پیٹرن بہت مختلف ہے اور اب اس پیٹرن کے ساتھ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا، جس کی وجہ سے پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں،مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ممالک کے برعکس ہمارے ہاں مختصر مدت کے لئے زیادہ بارش ہوتی ہے، جو صحیح طرح زیر زمین جذب نہیں ہوتی اور چونکہ ہمارے پانی جمع کرنے کے ذخائر بھی کم ہیں۔ اس لئے ہم اس پانی کا ذخیرہ بھی نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
اور اب صورتحال یہ ہے کہ دریائے راوی کے بعد ہم دریائے سندھ کو بھی ” زہریلا “ کرنے پر ”تُل“ گئے ہیں ۔ پاکستان کی ایک فوک گلوکارہ شازیہ خشک کو تو دریائے سندھ کے” خشک“ ہونے اور آلودہ ہونے کا احساس ہے اور وہ پکار رہی ہیں کہ دریائے سندھ کو دریائے گٹر بننے سے بچایا جائے لیکن بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کو اس سنگینی سے کوئی یارا نہیں ۔
ابھی حال ہی میں ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان میں کھانے پینے کی اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے دور ہونیوالی ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے معاشی ماہرین اقتدار سے جاتے جاتے ایسا گڑھا جان بوجھ کر کھود رہے ہیں جس میں صرف عوام ہی گرے گی ۔ ملک میں اس وقت کینسر زدہ مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اعلان کیا ہے کہ اگر عوام نے دوبارہ مینڈیٹ دیا تو وہ کینسر کے فری علاج کیلئے ہسپتال بنائیں گے ۔
مختلف اطراف سے بیماریو ں اور مشکلات کے بڑھتے طوفان کو روکنے کیلئے کوئی ایک لیڈر بھی غور وفکر کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ اس طوفان کو دیکھتے ہوئے اگر ہم مذہبی رہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ ایم ایم اے کی بحالی میں زیادہ سنجیدہ ہیں بہ نسبت ڈیمز بنانے یا ہسپتالوں کی تعمیر پر زور دیا جائے ۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے تازہ ترین ” فرمودات “ میں کہا کہ اگر تمام سیاستدان متحد نہ ہوئے تو سب ذلیل و خوار ہونگے ۔ مولانا کے اس بیان اور ” تدبر“ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اپنی ” عزت “ کی تو فکر ہے لیکن عوام کے جان ومال ، روٹی اور پانی کی کوئی فکر نہیں ہے ۔
نااہل ہوکر بھی اقتدار کے مزے لینے والے میاں نواز شریف اپنی مشکلات سے چھٹکارے کیلئے کہہ رہے ہیں کہ میں سب اداروں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوں لیکن آبی ذخائر کی تعمیر اورڈالر کو کنٹرول کرنے کیلئے وہ اپنی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ہدایت کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
آصف علی زرداری ملک کے طاقتور ترین سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ آئندہ حکومت بنا کر ہی دم لیں گے گویا ملک میں پینے کا پانی ہو یا نہ ہو ان کا ٹارگٹ حکومت بنانا ہے کاش وہ سندھ کیلئے کئی ڈیمز بنانے کا بھی اعلان کرتے اسی طرح عمران خان کارکنوں کو آئندہ الیکشن جیتنے کی خوشخبریاں تو سنارہے ہیں لیکن ” جنون “ کی پیاس بجھانے کیلئے وہ بھی کوئی فارمولا نہیں دے رہے پچھلے دنوں جس طرح ہماری تمام سیاسی جماعتیں سینٹ الیکشن کیلئے دن رات ” بے قرار “ دیکھی گئیں کاش یہ سب مل کر پاکستان کو قحط سالی سے بچانے کیلئے بھی سر جوڑ لیں پاکستان قحط سالی سے اس وقت محفوظ ہوگا جب قحط الرجالی ختم ہوگی ۔ فی الحال قحط الرجالی کا سیزن چل رہا ہے جو آگے چل کر قحط سالی میں تبدیل ہوجائے گا ۔ ہمارے ایک دوست کی شادی امیر گھرانے کی اکلوتی بیٹی سے ہوئی تو موصوف ازراہِ مذاق اکثر اس ” دکھ “ کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ وہ ” قحط سالی “ کا شکار ہیں کیونکہ ان کی اہلیہ کی کوئی بہن نہیں تھی لیکن پاکستان جس صورتحال کی طرف بڑھ رہاہے عنقریب پوری قوم ” قحط سالی “ کاشکار ہوسکتی ہے اس لئے قبل ازوقت اقدامات کی ضرورت ہے
######

Comments are closed.