شہباز شریف سے پنگا

محبوب الرحمان تنولی

اگر شہبازشریف کی گرفتاری میں حکومت کا کوئی ہاتھ ہے تو پھر یہ نرا پنگا ہے ۔۔ شہبازشریف سے محاذ آرائی کاحکومت کو نقصان تو ہے فائدہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔ ۔ شہبازشریف کی صورت میں حکومت کو ایک ایسا اپوزیشن لیڈر میسر ہے جو حکومت کیلئے مشکلات پیدا نہیں کر نے والا۔۔ ہاں اگر کوئی تقاریر سے بھی گھبرا کر آ بیل مجھے مار کے مصداق اپنے پاوں پر خود کلہاڑا مارے تو پھر اس ناقابل فہیم اقدام کو احمقانہ ہی کہا جاسکتاہے۔۔

شہبازشریف سے محاذ آرائی کا نقصان یہ ہوگا کہ قومی اسمبلی میں بھی عدم استحکام رہے گااورسینیٹ کا شور شرابہ بھی ختم نہیں ہوگا۔۔۔ اگر چہ شہبازشریف یا حمزہ شہبازسڑکوں پر تو شاید نہ آئیں لیکن مسلم لیگ ن اور شہبازشریف سے محاذ آرائی میں مدد کے بہانے اسٹیبلشمنٹ سے وزیراعظم عمران خان کو ایسی حمایت ملے گی جو حکومت کے مفاد میں نہیں ہوگی۔۔۔حکومت کو خود فیصلے کرنے کی بجائے احکامات لینا پڑیں گے۔

بن مانگے کے مشورے نہ مانے تو حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں گھسکنا شروع کر دیں گی یا پھر سخت شرائط سامنے آنے لگیں گی۔۔ شہباز شریف کی شکل میں حکومت کو ایک فرینڈلی اپوزیشن ملی ہے ۔۔ ۔عمران خان اگر سیاسی فہم و فراصت سے کام لیتے تو شہبازشریف کی پولی پولی بالیں کھیلتے رہتے اور حکومت اپنے اہداف کے حصول میں لگ جاتی۔۔ مگر وزیراعظم عمران خان نے عوام کے موڈ کا غلط اندازہ لگایا ہوا ہے، عوام نے اپنے ریلیف کیلئے تبدیلی کوووٹ دیا تھا سیاستدانوں کو قیدمیں ڈالنے کیلئے نہیں۔۔

یہ کام حکومت کا نہیں نیب اور عدلیہ کا ہے ۔۔ مگر بدقستمی سے پی ٹی آئی حکومت طالبان کی طرح ہر اس کارروائی کی بھی ذمہ داری اپنے سر لے رہی ہے جو وہ خود سرے سے کرہی نہیں رہے۔۔۔ چاہیں تو شہبازشریف کی گرفتاری کو بھی نیب کے کھاتے ڈال کر جان چھڑا سکتے تھے لیکن وزیراعظم اور وزیراطلاعات نے عجلت میں یہ دعویٰ کردیا کہ ابھی تو اور بھی اہم لوگ پکڑے جانے ہیں۔۔ یعنی عوام حکومت سے کسی ریلیف کی امید نہ رکھے یہ پکڑنے اور قید کرنے میں توانائیاں صرف کرتی رہے گی۔

معیشت کمزور ہے، سابق حکومت نے خزانہ خالی کردیا۔۔ پچھلی حکومت میں بہت کرپشن ہوئی۔۔ یہ وہ روائتی جملے ہیں پاکستان میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت سے ہم یہ سنتے آئے ہیں۔۔۔زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں مشرف سے لے کر عمران خان تک یہی ہوتا آیاہے۔۔کاش حکمران احتساب کاایسا نظام بنا دیں کہ حکومتوں کو کسی کی گرفتاری کی ضرورت نہ پڑے اور سسٹم چلتارہے۔۔ن لیگ نے احتساب میں موجود سقم دور کرنے کی بجائے قمر زمان چوہدری کے سہارے وقت گزار دیا اور آج خود پھنس گئے۔

اگر تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اپنے عارضی مقاصد کی تکمیل ہوتے دیکھ کر احتساب کا نظام درست نہ کیا تو کل خود عمران خان اور ان کے وزرا ء بھی ایسے ہی ترقیاتی کاموں کی انکوائریوں اور تحقیقات میں الجھے ہوں گے۔۔۔پانامہ کے بعد نوازشریف پر الزامات ، اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اثاثے بنانے کے الزامات کو قوم نے کسی حد تک تسلیم کیا۔۔۔ اس امید کے ساتھ حکمرانوں کے موقف کو مان لیا کہ شاید عدالتوں سے فیصلے آنے کے بعد کچھ ریکوریاں ہو جائیں گی لیکن شہبازشریف کا کیس اور ہے۔۔

یہ سطور لکھنے سے یہ مراد نہ لی جائے کہ شہبازشریف کا، خواجہ سعد رفیق کا۔ ان سے جڑی سوسائٹیوں ، کمپنیوں اور کرداروں سے تحقیقات روکی جائیں بلکہ لکھنے کامقصد یہ ہے کہ یہ تمام عمل وہ ادارے پورا کریں جن کے ذمہ یہ کام ہے۔۔ حکومت یہ تاثر دینا بند کرے کہ ان کی ایما پر ایسا ہو رہا ہے۔۔۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت ایسی کوئی آشیرباد دے گی یا دعوے کرے گی تو پھر اس احتساب کو بھی انتقام کا ہی نام دیا جائے گا۔

تحریک انصاف کی ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرح کا برا آغاز کیا ہے۔۔ جیسے کبھی کبھی پاکستان کی آدھی ٹیم پچاس رنز پر پولین لوٹ آتی ہے اور ،، ٹیل ،،سٹرگل کرتا نظر آتاہے۔۔۔ایسے ہی تحریک انصاف نے آتے ہی سوئی گیس، بجلی ، پٹرول کی قیمتیں بڑھا دیں۔۔ نان فائلرز کے معاملے کو چھیڑا پھر یو ٹرن۔۔۔ وزیراعظم غیر ملکی دورہ نہیں کریں گے تین مہینے پھر یو ٹرن۔۔اب آپ خود ثابت کررہے ہیں کہ فیصلہ سازی میں آپ ثابت قدم نہیں ہیں۔

عمران خان نے اپوزیشن کی تو قرضوں اور معیشت کاذکر کرتے رہے ۔۔ انتخابی مہم کے دوران بھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے دعوے کرتے رہے ۔۔ اسد عمر بھی پارلیمنٹ میں ایسے عالمانہ خطبات کرتے تھے کہ شاید یہ گودڑی سے کوئی ایسا لعل نکالیں گے جو تمام معاشی مسائل حل کردیں گا۔۔ان کے دعووں سے لگتا تھا اسحاق ڈار ایویں ہی ہیں اصل اقتصادی ماہر تو اسد عمر ہیں۔۔ لیکن پھر جیسے نواز شریف نے کہا تھا کشکول توڑ دیں گے اور پھر جھولی پھیلا دی تھی پی ٹی آئی حکومت بھی انہی کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا حکومتی کارکردگی کا اندازہ سو دن کے بعد لگایا جائے ۔۔۔ابھی حتمی بات نہیں کی جاسکتی لیکن پہلے پینتالیس دن میں تو عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔۔ بدلے میں ابھی تک ملا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ ۔سب سے الرامنگ چیز یہ ہے کہ تحریک انصاف نے منشور میں جو کچھ لکھا تھا۔۔ انتخابی جلسوں میں جو اعلانات کئے تھے ان کے برعکس آغاز کیاہے۔۔ ۔ لیکن ابھی قوم مایوس بھی نہیں ہے۔ اس امید کے ساتھ خاموش ہے کہ عمران خان اپنے دعووں کے مطابق بجلی ، گیس ، پٹرول کی قیمتیں کم کریں گے۔۔

کسی نے ان کو یہ غلط بتا دیا ہے کہ عوام اس بات سے مطمئن ہیں کہ آپ لوگوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال رہے ہیں۔۔ عوام تو ریلیف کے منظر ہیں ۔۔ چاہتے ہیں تبدیلی سرکار ان کے لئے کچھ کر کے دکھائے۔۔ ۔جب کبھی لوٹی گئی قومی دولت واپس آئی تو تب دیکھا جائے گا۔۔ ابھی تو دور دور تک اس کے آثار نظر نہیں آرہے۔۔ اس لیئے بہتر ہے عمران خان حکومت کریں۔۔ عوام کو مسائل کے بھنور سے نکالیں ۔۔

احتساب کا عمل قومی احتساب بیور و ، عدلیہ اور دیگر متعلقہ اداروں تک چھوڑ دیں۔۔ ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کہیں اس پر عمل کریں۔ فیصلہ سازی میں استحکام لائیں۔۔ یو ٹرن کی چھاپ اتار دیں۔۔۔ فیصلہ کرکے بعد میں سوچنے کا رجحان حکومت کیلئے اچھاہے عوام کیلئے اور نہ ہی ملک کیلئے۔۔۔جیت کا جشن بہت ہو گیا اب وزراء بھی سنجیدہ ہو جائیں۔۔ وزیراطلاعات سے کہیں میڈیا کا گلہ گھوٹنے کی پالیسی بھی ترک کریں۔۔ یہ منفی اقدام آپ کی مثبت پہلووں کو بھی کھا جائے گا۔

Comments are closed.