شاہ محمود قریشی کا عمران خان پر ایک اور وار

نادر بلوچ

قریشی خاندان کے چشم و چراغ نے اصل مالکان کو خوش کرتے ہوئے دوسری مرتبہ وزیراعظم عمران خان کی پیٹھ میں چھرا گونپ دیا ہے۔ دو ہفتے پہلے شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کرکے پبلک فورم پر آکر جہانگیرترین کے خلاف گفتگو کی۔

وہ یہ کابینہ اجلاس میں بھی اپنی بات کرسکتے تھے یا پھر عمران خان سے علیحدگی میں ملاقات کرکے بھی اپنے تحفظات بیان کر سکتے تھے کہ جہانگیرترین کو کابینہ اجلاس میں نہ بلایا جائے لیکن شاہ صاحب نے جان بوجھ کر پریس کانفرنس کرکے اس معاملے کو اچھالا اور مخالفین کو باتیں کرنے کا موقع دیا۔

سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے گیپ دیکھ کر شاٹ کھیلا تھا یعنی اپرچونسٹ (موقع پرست) ٹائپ کے بندے ہیں جہاں موقع دیکھتے ہیں اپنی گیم ڈال دیتے ہیں۔

دو دن پہلے اورماڑہ میں دہشتگردی کا ایک اور بدترین واقعہ پیش آیا جس میں نیوی کے 14 جوان شہید ہوگئے۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران سے ٹھیک ایک دن پہلے پریس کانفرنس کرکے قوم کو بتایا کہ دہشتگرد ایران کی سرحد استعمال کرتے ہوئے پاکستان داخل ہوئے اور کارروائی کرکے بحفاظت آسانی سے واپس چلے گئے۔

اس پر آج دن میں فیس بک پر ایک پوسٹ میں تھوڑا نقد کرکے سوال بھی اٹھایا تھا لیکن کچھ صحافی دوست جو الحمد اللہ سوچنے سمجھنے یا تھوڑی سی خود سے فکر کرنے میں بالکل ہی دقت نہیں کرتے، ان دوستوں نے تنقید کرنا شروع کردی اور کچھ صاحبان نظر نے بھارتی شدت پسند تنظیم بی جے پی کے کارکنوں کی طرح ملک چھوڑ کر ایران جانے کا مشورہ دے دیا۔

اس پر غصہ تو بہت آیا مگر معاف کردیا۔  دارصل ایسے احباب تجزیہ و تحلیل کرنے میں مکمل طور پر فیل ہیں یا پھر کچھ اور وجوہات کی بنا پر ایسے کمنٹ کرتے رہتے ہیں لیکن میں پھر ان کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں اور میرے لیے قابل احترام ہیں۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف،، شاہ صاحب نے بتایا کہ دہشتگرد ایران سے 18 اپریل کو پیدل پاکستان داخل آئے اور کارروائی کرکے واپس چلے گئے۔ میں حیران ہوں کہ ایران بارڈر سے اورماڑہ کا سفر 445 کلومیٹر بنتا ہے یعینی اگر دہشتگرد اچھی گاڑیاں لیکر بھی نکلیں تو بھی انہیں 6 سے 7 گھنٹے درکار ہیں۔

متعلقہ جگہ پر پہنچے کے لیے اور واپس جانتے کے لیے بھی اتنا ہی وقت درکار ہے۔ لیکن کیونکہ شاہ صاحب کے بقول وہ پیدل آئے تھے تو دہشتگردوں کو متعلقہ جگہ تک پہچنے کے لیے 14 سے 15 دن کا پیدل سفر طے کرنا پڑتا ہے اور اتنے ہی دن واپس جانے میں لگتے ہیں۔ اس لیے شاہ صاحب کی باتوں میں بیحد تضاد پایا جاتا ہے۔

اگر شاہ صاحب یہ کہہ دیتے کہ وہ گاڑیوں پر آئے تھے تو بھی سوال اٹھتا ہے کہ کسی بھی چک پوسٹ پر ان دہشتگردوں کو کیوں نہ روکا گیا اور کیوں کارروائی نہ کی گئی؟۔ خیر کہتے ہیں نا کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔ میں کہتا ہوں کہ ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیتے ہیں کہ دہشتگردوں نے سرحد استعمال کی۔

پیدل چودہ دنوں کا سفر منٹوں میں کرلیا اور کسی کو نظر بھی نہیں آئے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ معاملہ تو وزیراعظم عمران خان دورہ ایران کے دوران بھی تو اٹھا سکتے تھے یا خود شاہ محمود قریشی صاحب بھی ایرانی آفیشلز کے ساتھ اس معاملے کو اٹھا سکتے تھے۔

دورہ ایران کا جو شیڈول اور ایجنڈے کے پوائنٹس شئیر کیے گئے ہیں اس میں بارڈر سیکیورٹی کا معاملہ ٹاپ پر ہے، تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ شاہ صاحب نے کس کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے؟۔  سچ یہی ہے کہ شاہ محمود نے عمران خان کے دورے کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے اور دورہ ایران کو بےسواد کردیا ہے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی عمران خان کے پہلے دورہ ایران پر ساتھ بھی نہیں جا رہے اور اچانک جاپان کی تیاری پکڑ رہے ہیں۔ باخبر لوگوں کا ماننا ہے کہ شاہ صاحب کی نگاہ وزارت عظمیٰ پر ٹکی ہوئی ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ لوگ ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے افراد تاریخ کے کوڑے دان کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔

Comments are closed.