سکندر بخت اور کراچی کی لابی

محبوب الرحمان تنولی

سکندر بخت کے کل کے تبصرے نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ اکثر قومی کرکٹ ٹیم کے معاملات، سلیکشن، کارکردگی پر تبصرے کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن کل جوہانسبرگ میں قومی کرکٹ ٹیم کی شعیب ملک کی قیادت میں جنوبی افریقہ کے خلاف فتح پر سکندر بخت نے عجیب و غریب تبصر ہ کیا جو کسی گلی محلے کے لڑکے ہی کا ہو سکتاہے۔ ۔ کہتے ہیں شعیب ملک کو کپتانی مل گئی ہے اب وہ اپنے تعلقات استعمال کرکے اس کپتانی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا اس کے سیالکوٹ کے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے بہت تعلقات ہیں۔

سکندر بخت ، یحیٰ حسینی ، ندیم خان اور کراچی کے کئی کرکٹ کے ماہرین جو جیو ٹی وی سمیت مختلف چینلز پر بیٹھ کر قومی کرکٹ کے حوالے سے بولتے رہتے ہیں ان میں ایک بات بہت مشترک ہے کہ وہ پاکستان کی ٹیم میں صرف کراچی کے لڑکوں کو ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرفراز احمد ہی نہیں ، انور علی، فواد عالم ، خرم منظور سمیت کئی ایسے کھلاڑی ہیں جن کیلئے یہ پوری ٹیم کی سلیکشن پر سوالیہ نشان چھوڑ تے رہتے ہیں۔ حالانکہ جب آپ کو ایک پلیٹ فارم مل جائے تو اس کا بہترین استعمال میرٹ پر بولنا بھی ہوتاہے لیکن یہ حضرات صرف کراچی والوں کے وکیل بن جاتے ہیں۔

مجھے یہ سطور لکھتے ہوئے خود بھی اچھا نہیں لگ رہا کہ میں کسی تقسیم کی بات کرتاہوں میرے لیئے کراچی، لاہور، پشاور ، کوئٹہ ہو یا کوئی اور شہر سب برابر ہیں۔ لڑکاکوئی قبائلی علاقے سے آئے یا آزاد کشمیر سے جب وہ قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن جائے تو پھر اسے علاقے یا شہر کی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے صرف پاکستان کیلئے اچھا کھیلنے اور اس کی صلاحیت کو پیش نظر رکھ کر دیکھنا چایئے۔ ۔ لیکن فواد عالم کے بارے میں اتنا کچھ کہا گیا کہ لگتا تھا کوئی بریڈ مین ہم نے مس کردیاہے۔۔ فواد عالم اچھا پلیئر ہے خاص کر ٹیسٹ کرکٹ کیلئے لیکن اتنا ناگزیر بھی نہیں ہے۔

سکندر بخت سے کوئی پوچھے کہ کیا قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان سیالکوٹ کے ایم این ایز بناتے ہیں؟ کیا ارکان پارلیمنٹ قومی ٹیم کاانتخاب کرتے ہیں؟ کیا کسی اور کرکٹر کے ارکان اسمبلی یا اہم شخصیات سے تعلقات نہیں ہیں؟ اگر آپ کے اندر بغض بھرا ہے تو اس کا اظہار اس طرح سے کرنا ضروری ہے، ایک سابق کرکٹر کے منہ سے اتنی بے وزن رائے سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔۔ یحیٰ حسینی صاحب بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور انھیں شعیب ملک کے خلاف کوئی فیصلہ یاد آگیا اور گویا ہوئے کہ کیا شعیب ملک کو کپتا ن بنایا جاسکتاہے۔

حیرت ہوتی ہے ایسے یکطرفہ تبصرے سن کر ۔ ۔ اگر آپ کو کسی چینل نے اتنا فری ہینڈ دے ہی دیا ہے توپھر بھی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اہل کو بھی نااہل ثابت کرتے پھریں۔۔ سرفراز رنز نہ کرے۔ کیچ چھوڑ دے ، کپتانی میں بلنڈر مار دے تو سب معافی۔۔ کامران اکمل اگر تین سال لگا تار بہترین بیٹسمین ڈکلیئر ہو تب بھی اس کی ٹیم میں واپسی پر طرح طرح کے تبصرے شروع ہوجائیں۔۔ ہم نے آج تک پاکستان کے کسی اور حصے سے اس طرح کے ، جھکاو پر مبنی تبصرے نہیں سنے۔۔ خدارا کراچی والے نہیں پاکستان والے بن کر سوچیں۔
سرفرار احمد کی قیادت پر کوئی اعتراض ہے نہ اس کی صلاحیتوں پر ۔۔ لیکن جب کوئی اچھا نہ کھیلتا ہوتو پھر تنقید بھی سب پر برابر ہونی چایئے۔۔ محمد حفیظ اچھا نہ کھیل رہا ہوتو آپ پچھلے دس میچز کا ریکارڈ لے کر آجاتے ہیں۔۔ سرفراز احمد کی بیٹنگ مسلسل فیل ہو رہی ہو تو آپ کو سانپ سونگ جاتا ہے۔۔۔ شعیب ملک کی صلاحیتوں کا پوری دنیا میں اعتراف کیا جاتاہے ۔شعیب ملک ہی موجودہ ٹیم میں وہ واحد کھلاڑی ہے جس کی دنیا بھر کی لیگز میں مانگ بھی ہے اور کارکردگی بھی۔۔ شعیب ملک ہی نے سیالکوٹ کی قیادت کی تو ان سب سورماوں کی موجودگی میں سیالکوٹ کی ٹیم بار بار ٹی ٹونٹی کی چمپئن بنتی رہی۔

بار بار یہ جواز بنایا جاتاہے کہ ورلڈ کپ آ رہاہے کپتان کو تبدیل نہیں ہوناچایئے۔۔ بات اس حد تک درست ہے جب کپتان صاحب خود کوئی کارکردگی بھی دکھارہے ہوں۔۔۔شعیب ملک کو اس لیئے کپتان بنانے کی مخالفت ہے کہ وہ ورلڈ کپ کے بعد شاید ریٹائرڈ ہو جائیں اگر شعیب ملک کی قیادت میں ٹیم ورلڈ کپ جیت لے تو پھر ہو جائیں ریٹائرڈ ۔۔۔ ٹیم تو اس کے بعد بھی سرفراز یا کسی اور کی قیادت میں چل سکتی ہے۔۔ اور اگر نیوز ی لینڈ کے بعد جنوبی افریقہ سے بھی پے در پے شکستوں اور خود سرفراز احمد کی بیٹنگ نہ چلنے کی وجہ سے شعیب ملک کی آمد سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے تو اس پر بے تکے تبصرے کرنے کافائدہ؟

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی سرفراز احمد کی نسل پرستانہ جملے بازی کے بعد پابندی کو ہر فورم میں اٹھانے کابیان دے کر غلط کیاہے۔ آ پ نے پہلے ملک بیچنے والے محمد عامر کو موقع دے کر یہ ثابت کیا کہ ڈیل کر لیاکریں ۔۔ کچھ سزا کے بعد کوئی بھی دوبارہ ٹیم میں آ سکتاہے۔۔ اب سرفراز کی حمایت کا بھی یہی مطلب ہے کہ آپ ایک غلط اقدام کی حمایت کررہے ہیں۔ ۔ سرفراز کے چار یا پانچ ونڈے نہ کھیلنے سے کیافرق پڑ جائے گا۔ کم از کم آئندہ لڑکوں کو یہ بات سمجھ آنی چایئے کہ وہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کیلئے بدنامی کاباعث نہ بنیں۔

جس طرح سلیکشن کمیٹی کی ایک زمہ داری ہوتی ہے۔۔ قومی ٹیم کو ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔ کرکٹ بورڈ کو صورتحال کنٹرول میں رکھنے کیلئے ضابطے بنانے پڑتے ہیں۔۔ پوری قوم ٹیم کی اچھائیوں اور برائیوں پر نظر رکھتی ہے اسی طرح کرکٹ کے ماہرین کو بھی میرٹ پر بات کرنی چایئے ۔۔ کسی علاقے یا شہر کی ڈنڈی مار کر تعصب کااظہار نہیں کرنا چایئے۔۔ آپ کو ایک بار کہیں لوگ نظر انداز کر دیں گے آپ کو دوسری بار  ناظرین آپ کی سنیارٹی سمجھ کر پی جائیں گے لیکن جب آپ تسلسل سے تعصب کا بیج بوہیں گے تو یقینا سننے والے بھی ذہین بھی رکھتے ہیں اور کرکٹ سے محبت رکھنے والی قوم کرکٹ کی سوجھ بوجھ بھی رکھتی ہے ۔

Comments are closed.