’’سٹیو جابز کے آخری الفاظ ‘‘

کچھ عرصہ قبل مجھے سٹیو جابزکے آخری الفاظ کے ٹائٹل کے ساتھ ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس نے بے حد متاثر کیا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں سٹیو جابز کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں کی پہلی اور بہت محدود صف میں ہوتا تھا اور اُس نے اپنی 56 سالہ زندگی میں اتنی دولت کمائی جس کا کوئی شمار نہیں اور بلاشبہ اس مادّی دنیا کی کوئی قابلِ خرید شئے اورخوشی ایسی نہیں جسے وہ آسانی سے نہ خریدسکتا ہو مگر جب اُس پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ اصل دولت اورحقیقی خوشی کیا ہے اور کہاں سے ملتی ہے اور یہ کہ چیزوں کی ’’قدر‘‘ اور ’’قیمت‘‘ میں کیا فرق ہوتا ہے تو اُس نے جو باتیں کیں میرے خیال میں وہ اُس کی جمع کردہ ساری دولت پر بھاری ہیں۔

میں نے یونہی تجربتاً انھیں ایک منظوم شکل دینے کی کوشش کی تو اس نظم نے بننا شروع کیا اور ایک وقت آیا جب یہ اپنے تاثّر کی حد تک اس قدر خود مختار ہوگئی کہ اُسے میرے سمیت کسی کی بھی ضرورت بھی نہیں رہی۔ آج فیس بُک پر میری نظر مرحوم بھارتی اداکار عرفان خان کی ایک ایسی تحریر پر پڑی جو اُس نے زندگی اور موت کی کشمکش کے دوران لندن کے ایک اسپتال میں لکھی تھی تو میرا دھیان بے اختیار سٹیو جابز والی اس نظم کی طرف گیا اور مجھے یوں لگا کہ اس امانت کو قارئین تک پہنچانا میرا فرض ہے، سو اب یہ امانت آپ کے حوالے ہے اُمید ہے۔ آپ بھی میری طرح اس سے بہت کچھ سیکھ سکیں گے ۔ سٹیو جابز کے آخری الفاظ:

’’میرے قدموں میں ہیں کامیابی کی سب آخری منزلیں

میرے ہاتھوں میں ہے ممکنہ ہرخوشی

اس زمیں پر میری دسترس میں نہ ہو!

کچھ بھی ایسا نہیں

پر ہے اب یہ کُھلا

جگ میں اصلی خوشی کا کوئی واسطہ

مال و زر کے گھرانے سے تھا ہی نہیں

اپنی دولت سے ہم لے بھی سکتے تو ہیں

کوئی گاڑی نئی اوربہت قیمتی

رکھ بھی سکتے تو ہیں کوئی چالک کہ جو

حسبِ احکام روکے ، چلائے اسے

اورخدمت میں حاضر رہے رات دن!

سامنے کی مگر یہ حقیقت بھی ہے

اپنی قسمت کوئی بانٹ سکتا نہیں

آپ کے اپنے حصے کی بیماریاں

کوئی نوکر کبھی کاٹ سکتا نہیں!

جتنی چیزیں ہیں اس عالمِ ہست میں

کھو بھی جائیں اگر

اُن کو ہم ڈھونڈ کر لا بھی سکتے تو ہیں

کوئی نعم البدل، پا بھی سکتے تو ہیں

زندگی کا مگر کوئی ثانی نہیں

گم یہ جائے اگر

تو دوبارہ کہیں سے بھی ملتی نہیں

ہے سبھی کچھ گماں، اِک حقیقت ہے بس

زندگی، زندگی، زندگی، زندگی!

جن کتابوں میں ہے زندگی کا سبق ، وہ کتابیں پڑھیں

زندگی کی طرح زندگی کو جیئیں!

اُن کا پہلا ہے حق

سب سے پہلے یہ وقت اپنے بچوں کو دیں

اور پھر ساتھ بھی

اس کے کانوں میں بھی دل کی باتیں کرے

جس سے خوشیوں کا اور درد کا ساتھ ہے

دوستوں سے بھری محفلوں میں رہیں

اس سے پہلے کہ یہ کھیل رک جائے اور سارے پردے گریں

جو بھی دل سے ملے، اُس کی عزت کریں

جس قدر ہو سکے سب سے اچھا کریں

اور یہ جان لیں،

’’ہم کلائی پہ جو باندھتے ہیں گھڑی

چند سوکی ہو وہ یا کہ لاکھوں کی ہو

ایک سا وقت دیتی ہیں دونوں سدا!

بیگ، سستا ہو یا ہو بہت قیمتی

اُس کے معیار سے، اُس میں رکھی ہوئی ایک بھی چیز کی

قدر و قیمت میں کچھ فرق پڑتا نہیں

کار کیسی بھی ہو! خوشنما اور نئی

تیز رفتار ہو یا کھٹارا نما

اس کا مطلب نہیں ہے کسی چیز سے

ہے سفر بھی وہی، فاصلہ بھی وہی اور منزل وہی!

جس طرح کی بھی مے ہو کسی جام میں ، ہے خمار ایک سا

آسماں میں رواں کوئی پرواز ہو

آپ کی سیٹ چاہے کہیں پہ بھی ہو

جس بھی درجے میں ہو

کچھ بھی گِرتے سمے، فرق پڑتا نہیں‘‘

اپنے اپنوں سے اور ساتھیوں سے سدا

مل کے گائیں ہنسیں، سب وہ باتیں کریں

جن کا مقصد فقط بات کرنے سے ہو

جو بھی دل میں ہو وہ بے جھجک بول دیں

اور آخر میں بس زندگی کے یہی پانچ گُر جان لیں

جو حقیقت میں ہیں حاصلِ زندگی

جن میں ہے ہر خوشی

’’مال و دولت کمانے کا کیا راز ہے!

اپنے بچے کویہ مت سکھائیں کبھی

کیونکہ اصلی خوشی توکہیں اور ہے

’’قدر‘‘ ہے اصل جوہر کسی چیز کا، اُس کی’’ قیمت‘‘ نہیں

اِ ک دوا کی طرح ضابطے میں رکھیں

اپنی خوراک اور اس کی مقدار کو

ورنہ یہ ایک دن

خود دوا ہی کی صُورت میں ڈھل جائے گی

جومحبت کریں اُن کو تعظیم دیں

صرف اپنے لیے سوچتے جو نہیں

آپ کا ہاتھ یہ ’’رب کے تحفے‘‘ کبھی

چھوڑ تے ہی نہیں

ساتھ دینے کا کوئی نیا راستہ

مل ہی جاتا ہے ان کو کہیں نہ کہیں

صرف ’’ہونے‘‘ میں اور ایک انسان ’’بننے‘‘ میں کیا فرق ہے

اس کو سمجھو کبھی

ماں کی آغوش میں آنکھ کھلنے کے لمحے کے آغاز سے

ایک بجھتی ہوئی آخری شام تک

’’پیار‘‘ اور ’’یاد‘‘ ہیں آخری سرحدیں

جو بھی ہے ،ا ن کے پھیلائو کے درمیاں

ہم نے خود سے ہی کرنے ہیں سب فیصلے

اگلے پَل کے لیے!

تیز چلنا ہو جب تو ضروری نہیں ہے کوئی ساتھ ہو!

’’دور کا ہو سفر تو ہے یہ لازمی

دوستوں کی رفاقت میں مل کر چلو!

اور نہ بُھولو کبھی، کوئی مشکل نہیں!

جب خدا ساتھ ہے‘‘

(بشکریہ ایکسپریس)

Comments are closed.