رمضان المبارک کی آمد اورہماری کمزوریاں

ولید بن مشتاق مغل

’’میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا‘‘
’’ترا دل تو ہے صنم آشنا،،،،، تجھے کیا ملے گا نماز میں‘‘
(ڈاکٹر  علامہ  محمد اقبال)
ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے،  ہلال   کی دید  کے ساتھ  ہی  ماہ مبارک کی انوار و تجلیات سایہ فگن ہوں گی۔ ایمان و عمل کی بہار ، سحر و افطار  کی برکعتیں   ہونگی ۔رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے جس میں  انوار وبرکات اور رب کعبہ کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں۔وقت  تیزی سے بدل  رہا ہے، عالمگیریت اور جدیدیت نے انسان کو  اک طرح سے مشین بنا دیا ہے ۔  آج کے انسان کے پاس نہ وقت ہے نہ  سکون ۔  اوراس سارے عمل میں اصل مقصد تو کہیں بہت پیچھے ہی  چھوٹ چکا  ہے ۔ اور تو اور  اتنے جتن  کے باوجود  بنیادی انسانی ضروریات کی فراوانی بھی حضرت  انسان  کو نصیب نہیں  ہو سکی ۔ 

آزمائشی بنیاد پر  مبنی یہ  زندگی انسان کو اس لیے دی گئی تھی کہ  اپنے عقل و فہم  سے حقیقت کی طرف متوجہ ہوں اور  نائب کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے  مالک کے تمام احکامات  پر کاربند ہو جائے ۔  انسان کمزور ہے   لیکن ساتھ ہی یہ آسرا  بھی ہے کہ اسکا  رب  رحمن  ورحیم  ہے۔  انسان غلطیاں کرتا ہے تو نادم بھی ہوتا ہے اور اسکا  غفور  و رحیم  رب اسے درگزر بھی کر دیتا ہے۔  اللہ پاک کا ہم  پر  خاص کرم ہے کہ ہم اسکی رحمن  و رحیم  کی دونوں صفات کے نہ صرف اہل ہیں  بلکہ  مالک  کے جس قدر شکر  بجا لائیں وہ کم  ہے کہ اس نے  ہمیں ایمان کی دولت سے بھی  نوازا ہے ۔ ہم اسکی بندگی  کا حق تو ادا نہیں کر سکتے    لیکن  کم سے کم اپنی کمزوریوں  کوتاہیوں کی  معافی کے لیے  صرف اسی کے سامنے سر جھکاتے  ہیں ۔  ہم  اپنے رب سے  گلہ بھی کرتے ہیں اور کسی بھی خواہش کا اظہار بھی ،جو ہمارے لیے بہتر ہے وہ ہمیں عنایت کر دیتا ہے ۔ اسکے ساتھ جڑنے کا، اس  سے مانگنے کا  کوئی خاص  وقت مقرر نہیں !کوئی حد  مقرر نہیں! وہ بحر وبر  پر سنتا ہے، وہ زمین کے  اوپر ،سمندروں  کی  گہرا ئیوں  میں ،آسمانوں کی بلندیوں  پر  ہر جگہ ہمیں دیکھ اور سن رہا ہے ۔ وہ  شہہ رگ کے قریب  ہے.

وہ مالک کل  سے  جو   نیتوں کو بھی جانچ لیتا ہے، وہ   اتنا غنی داتا ہے کہ نیکی  کے ارادے سے قبل ہی اسکا ثمر بھی  عطا کرتا ہے ۔ اس  واحد ذات باکمال   سے جڑنے کا سب سے  بہترین  طریقہ صلوت / نماز ہے ۔  نماز میں  ہم اپنے  رب سے  مخاطب ہوتے ہیں ۔ رمضان المبارک میں   روزہ اور نماز کا باقاعدہ خاص اہتمام  کیا جاتا ہے۔ لیکن دور جدید  میں   ہم کمزرو  انسان عبادات میں بھی  ڈنڈی مار جاتے  ہیں ۔ہم  میں سے کتنے دوست ایسے ہیں  جنہوں نے بس وہی بچپن والی نماز یاد کی ہوئی ہے،  چند آسان آسان سورتوں اور دعاؤں والی، وہی  سبق جو ہم نے  چار آنے کی جنتری  سے  پڑھ کر  رٹا لگا لیا تھا ۔ ذرا  سوچیں  کیا   کبھی بھی  ہم نے یہ سوچا کہ اپنی نماز کو اپگریڈ کریں؟ یعنی معنی و مفہوم سمجھ لیں  آیات پڑھ لیں  حفظ  کر لیں ۔ نماز  ہماری ایسے بھی  ٹھیک ہے، قبول کرنے والی ذات  تو  ہے ہی غفور و رحیم۔ لیکن مانگنے کے بھی انداز ہوتے ہیں۔

دو رکعت کی نماز میں  دنیا کے 100 کام جو ہم  سوچتے ہیں ،جو 10فیصلے ہم نماز میں کر لیتے ہیں وہ کیا ایسے  ہی خیال ہو گما ن میں آ جاتے ہیں ۔ نماز تو ہم پڑھ لیتے ہیں  لیکن خیال تو کہیں اور ہی ہوتا ہے۔نماز میں کون سی صورت پڑھ لی اکثر ہم یہ بھی نہیں جانتے  تو سلام بھی پھیر لیتے ہیں ۔ بھیا دو منٹ رک میں  نماز پڑھ لوں!  ہم تو رب کے حضور بھی وقت طے کر کے جاتے ہیں کہ جو بھی ہو جائے  دو منٹ میں یہ ختم ہی کر لینی ہے ۔  یہ کیسی کمزوری ہے ؟کیا یہ نفس ہے یا ہمارا ازلی دشمن بہکاوے میں ڈال دیتا ہے۔ رمضان میں بھی ہم ایسے ہی ہوتے ہیں تو سوچنا پڑھ گا شیاطین کو قید ہیں پھر یہ دنیا کے سو خیال نماز میں کیوں آ جاتے ہیں ۔ نماز  رب سے ملاقات  ہے تو اس وی وی آئی پی  ملاقات کی   تیاری تو کرنی چاہیئے ،جسم سے لیکر لباس تک ،کھڑے ہونے کے انداز سے لیکر  کلمات تک میں  وہ عاجزی و نفاست   ہو کہ  مالک بھی  راضی ہو جائے۔

بچپن  کی نسبت ہماری ڈیمانڈیں بھی تو بڑھ گئی ہیں۔ ہم وہ بچپن والے معصوم معصوم بچے تھوڑی رہے ہیں؟ اب غلطیاں کر کر کے سارے رجسٹر کھاتے بھرے دیے ہیں ۔  ہم تو مانگنے کا انداز  بھی نہیں بدلنا چاہتے۔ عام زندگی میں ہر چیز اور موبائل کی  اپلیکیشن کی  بار بار  اپ گریڈ چیک کرتے ہیں۔بندوں سے مانگنے کا سٹائل بھی  روز بدلتے ہیں۔ لیکن  اللہ پاک کو ترلے ڈالنے کےلیئے کچھ نیا نہیں سیکھنا چاہتے جس سے اس کی خوشنودی اور رضا مل جائے۔ حضور ﷺ نے ہمیں ثناء کے ایک سے زیادہ صیغے بتائے ہیں، رکوع میں اور رکوع کے بعد مختلف انداز میں التجاء کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔ سجدوں میں کرنے والی ایک سے زیادہ سرگوشیاں سکھائی ہیں۔ دو سجدوں کے دوران ایسے ایسے طریقے سے عرضی بھیجنے کا سلیقہ سکھایا ہے کہ مالکﷻ انکار ہی نہ کرے۔ تو پھر؟ چلئے  لے آ ئیں کوئی  بھی چار آنے کے بعد والی نماز کی کتاب۔ کوئی تو ایسی نئی بندگی کی ادا سیکھیں  جو  ہمیں "آٹو موڈ” والی مکینیکل نماز سے نکال کر تسلی والی مینیوئل نماز پر ڈال دے۔ کوئی تو ایسا نیا ترلہ سیکھیئے جو مافی الضمیر کو بتانے کا انداز بتائے۔ کوئی تو بہانہ ہو  جو نماز  میں خشوع و خضوع  پیدا کر  دے ۔ اب قلفی چار آنے کی نہیں ملتی، آئیسکریم کے ایک ہزار ایک فلیور ہماری ڈیمانڈ بن چکے ہیں۔ بڑی بڑی ڈیمانڈوں کو چھوٹی چھوٹی دعاؤں میں مانگنے کے لیئے تھوڑا سا تو اپنے آپ کو اپگریڈ کرنا ہوگا۔ اگر چل چلاؤ کا وقت ہے تو کچھ تو زاد راہ زیادہ اکٹھا کرنے کا منصوبہ بنانا ہوگا۔ ہر سال  رمضان المبارک کا مہینہ اپنی برکتیں  لیے ہمیں میسر  ہوتا ہے لیکن ہم دنیا کے گورکھ دھندے میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ اپنی بخش کا رمضان المبارک کی صورت میں اللہ تعالی کی طرف سے دیا جانے والاموقع ضائع کر دیتے ہیں۔  

اس رمضان کیو ں نہ ہم  شیاطین  کے قید  ہونے کا فائدہ اٹھائیں ۔ کیوں نہ وہ سستی  و کاہلی دور بھگا دیں  جو ہمیں اپنے رب سے مانگنے  کا  سلیقہ بھی نہیں سیکھنے دیتی ۔ کیوں نہ وہ کلمات سیکھ لیں  جن سے ہم اپنے رب کو راضی  کر لیں ۔کیونکہ  آدم کی طرح  ہم بھی اپنی غلطیوں کے لیے رب کے حضور    سر جھکا دیں اور دعا کریں کہ مالک  ہم سے راضی ہو جا  ۔ہمیں معاف کر دے، ہمیں وہ  علم  بھی   سیکھنے کی طاقت دے جس سے ہم تجھے  راضی کر لیں ۔ کیوں   نہ ہم نماز ،روزہ ،دعا    کے آداب سیکھ لیں ، کیوں نے ہم  رب تعالی سے مانگنے کا ہنر سیکھ لیں ۔ بے شک    دینے والی ذات بس اسی کی ہے ۔اسکے بغیر نہ کوئی رازق نہ ہے نہ ہی مالک ، وہی مسبب  الاسباب وہی رحمن و رحیم وہی  مَالِکُ الْمُلْکِ وہی  ذُوالْجَلَالِوَالْاِکْرَامِ۔کس کو معلوم کہ  ہمیں دوبارہ رمضان المبارک کا مہینہ نصیب ہو گا یا نہیں ۔  تو کیوں نے سعی کریں اور اس رمضان  المبارک کے دوران  اس سستی و کاہلی  اس رٹے رٹائے  کلمات سے آگے بڑھیں  اور اپنے رب کو راضی  کرنے کے لیے  عمدہ   انداز و آداب و کلمات کو سیکھیں ۔ اوراسکے حضور اپنی بخشش کی  استدعا  ودعا کچھ ایسے انداز میں کریں کہ مالک   انکار ہی نہ کریں ۔  اپنی دعاوں میں یاد رکھیئے۔  طالب دعا۔۔

Comments are closed.