خصوصی خواتین گھبرانے کی بجائے مسائل کا حل تلاش کریں، رخسانہ بھٹی

ثاقب لقمان قریشی

نام: رخسانہ بھٹی
تعلیم: 1۔ بی اے 2۔ ڈاکٹر آف ہومیوپیتھی
این-جی-او: بانی و صدر ریسپیکٹ فار سپیشل پرسنز
رہائش: حافظ آباد (سوئیانوالہ)

خاندانی پس منظر:

والد لائف سٹاک ڈاکٹر تھے۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔خاندان دو بہنوں اور چار بھائیوں پر مشتمل ہے۔ ایک بھائی پاکستان آرمی میں آفیسر، دوسرے ویٹنری ڈاکٹر ، تیسرے بھائی پی ٹی سی ایل جبکہ چوتھے بھائی ایس او ایس میں اکاؤنٹس آفیسر ہیں بڑی بہن گورنمنٹ سکول ٹیچر ہیں۔

معذوری کی وجوہات:

چار سال کی عمر میں ٹائیفائیڈ ہوا جس کے ساتھ ہی پولیو کا وائرس حملہ آور ہوا۔ اس زمانے میں گاؤں، دیہاتوں میں ڈاکٹرز کم ہی ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر کی غفلت سے وقت پر مرض کی تشخیص نہ ہوسکی۔ رخسانہ کی ایک ٹانگ پولیو سے متاثر ہوچکی تھی۔ اب معذوری کے ساتھ جینا ہی رخسانہ کا مقدر تھا۔ معزوری، زندگی اورکیئریر کے حوالے سے رخسانہ بھٹی کی ‘زمینی حقائق ڈاٹ کام’ کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا احوال.

سوال:بچپن کیسا تھا؟ کیا لیڈر بننے کی صلاحیتیں بچپن ہی سے موجود تھیں؟

رخسانہ کا بچپن کھیل کود، لڑائی جھگڑوں اور سیروتفریح کے ساتھ بھر پور گزرا۔ قائدانہ صلاحیتوں کی مالک تھیں۔ بچوں کو اپنی مرضی کے کھیل کھیلنے پر مجبور کرتی تھیں، کھیل میں اپنی مرضی کے قانون بناتی تھیں اور رزلٹ بھی اپنی ہی مرضی کا چاہتی تھیں۔ شادیاں اٹینڈ کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ گاؤں کی ہر شادی میں پہنچ جایا کرتی تھیں۔ جس کی وجہ سے اکثر ڈانٹ بھی پڑا کرتی تھی۔

سوال: کس عمر میں سکول میں داخلہ ہوا؟ والدہ سکول بھیجنے سے کیوں ڈرتی تھیں؟

والدہ صاحبہ کی خواہش تھی کہ رخسانہ پڑھ لکھ جائیں لیکن انکی معذوری کو دیکھتے ہوئے سکول بھیجنے سے ڈرتی تھیں۔ والد صاحب علم دوست انسان تھے تعلیم کے معاملے میں ہمیشہ حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ معذوری اور علاج کی وجہ سے رخسانہ کا داخلہ تاخیر سے ہوا۔ عمر اور جسامت کی وجہ سے عام بچوں سے بڑی دکھتی تھیں۔ ذہانت اور لیڈ کرنے کی صلاحیتں تعلیمی سفر میں بھی نمایاں رہیں۔پیریڈ کے دوران جب کبھی ٹیچر کلاس سے باہر جاتیں تو کلاس میں نظم و ضبط قائم کرنے کیلئے رخسانہ کو کھڑا کر دیا کرتیں۔ اسی طرح رزلٹ اور سکول کی مختلف تقریبات میں بچوں کو کنٹرول کرنے کیلئے رخسانہ کو مامور کیا جاتا تھا۔ پڑھنے کا بہت شوق رکھتی تھیں۔ میٹرک میں بہترین نمبر لے کر رخسانہ نے والدین کا سر فخر سے بلند کر دیا۔

سوال: میٹرک کے بعد تعلیم کا سفر کیوں رک گیا؟

میٹرک کرنے کے بعد کالج میں داخلہ لینے کی باری آئی تو والدہ کو فالج کا اٹیک ہوگیا۔ گھر میں اور کوئی لڑکی نہیں تھی اس لئے رخسانہ کو اپنا تعلیمی سفر منقطع کرنا پڑا۔ والدہ کی خدمت، گھر کا کام اور چھوٹے بھائیوں کی ذمہ داری رخسانہ کے کاندھوں پر آن پڑی۔ رخسانہ گھر کے کام بھی کرتیں، والدہ کا خیال بھی رکھتیں، چھوٹے بھائیوں کی تعلیم پر بھی کڑی نظر رکھتیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ فالتو وقت میں پڑھا بھی کرتیں۔ 1994ء میں والدہ صاحبہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔
ڈاکٹر بننے کی خواہش تھی جو پوری نہ ہوسکی۔گھر میں رہتے ہوئے رخسانہ نے ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیئے۔ اوپن یونیورسٹی سے ٹیچنگ کورسز بھی کیئے۔ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ لگانا چاہتی تھیں۔ اسلیئے ہومیوپیتھی کے مشہور کالج عنائیت میموریل ہومیوپیتھک کالج حافظ آباد میں داخلہ لے لیا۔ تمام مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔

سوال: بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ کیوں شروع کیا؟ بچوں کو پڑھانے کے کتنے پیسے ملتے تھے؟

1990ء میں بنیاد فاؤنڈیشن نے ابتدائی تعلیم کی آگہی اور شعور کے حوالے سے ایک پراجیکٹ شروع کیا جس کا نام بی ایل سی سی تھا۔ رخسانہ کو پراجیکٹ میں بطور استاد بھرتی کر لیا گیا اور ماہانہ پانچ سو روپےتنخواہ مقرر کر دی گئی۔ رخسانہ پانچ سو روپے میں اپنے خرچے نکالنے کے ساتھ ساتھ بچت بھی کر لیا کرتی تھیں۔ پڑھانے کی وجہ سے گاؤں کی بہت سی خواتین رخسانہ سے ملنے آیا کرتیں۔ اسطرح یہ سلسلہ آگے چل کر سوشل ورک اور سیاست میں انٹری کا سبب بنا۔

سوال: شادی سے پہلے مالی طور پر کتنی مستحکم ہوچکی تھیں؟

بچوں کو پڑھانے کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے رخسانہ نے اپنا سکول اور کوچنگ اکیڈمی قائم کر لی۔ اکیڈمی میں بورڈ کے امتحانات کی تیاری کیلئے تجربہ کار اساتذہ کرام کی خدمات لی جاتی تھیں۔ مختصر سے عرصے میں رخسانہ کی اکیڈمی گاؤں کی مشہور ترین درس گاہ بن گئی۔ رخسانہ کو اکیڈمی سے تیس ہزار کی آمدن ہونے لگی جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔

سوال: خواتین کی مدد کیلئے بنک کیوں بنایا؟ آپ کے بنک سے کس نوعیت کے قرضے دیئے جاتے تھے؟

گاؤں کی خواتین کی مشکلات اور پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے رخسانہ نے سنی ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے ایک این جی او بنائی۔ جو خواتین کو سلائی کڑھائی، خانہ داری، بیوٹی پارلر، کوکنگ وغیرہ جیسے کورسز کرواتی تھی۔ خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے رخسانہ نے ایک بنک بھی قائم کیا جو آسان اقساط پر تین ہزار سے پچیس ہزار تک کے قرضے فراہم کرتا تھا۔ قرضوں کی اس سکیم سے گاؤں کی سینکڑوں عورتوں نے فائدہ اٹھایا۔ سکیم سے گاؤں میں گھریلو صنعتوں کو فروغ ملا۔ رخسانہ کی قرضہ سکیم سے شروع کیئے گئے بعض کاروبار آج بھی کامیابی سے چل رہے ہیں۔

سوال: شادی کہاں ہوئی؟ شوہر کیا کرتے ہیں؟ بچے کتنے ہیں؟

رخسانہ کی شادی خاندان میں ہوئی۔ شوہر قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں۔ بہت سی لوکل اور انٹرنیشنل این جی اوز میں کام کرچکے ہیں۔ آج کل امام مسجد ہیں اور زمینداری کا کام کرتے ہیں۔ خدا نے دو عدد بیٹوں کی نعمت سے بھی نواز رکھا ہے۔ بڑے صاحب ذادے کا نام احمد رضا ہے نویں جماعت کے طالب علم ہیں جبکہ چھوٹا عبدالرافع ہے چوتھی جماعت کے طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک حفظ بھی کر رہا ہے۔

سوال: سیاست میں کب قدم رکھا؟ کتنی بار الیکشن لڑے اور ممبر منتخب ہوئیں؟

پرویزمشرف کے دور حکومت میں رخسانہ پہلی مرتبہ حافظ آباد کے مشاورتی بورڈ کمیٹی کی ممبر منتخب ہوئیں۔ بلدیاتی الیکشنز میں کونسلر کی سیٹ کا الیکشن لڑا اور نمایاں ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ 2005ء کے الیکشنز میں دوبارہ کامیابی حاصل کرکے ممبر ضلع کونسل منتخب ہوئیں۔ اس طرح 2001 سے 2010ء تک لگاتار ممبر ضلع کونسل ناظم کے طور پر فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ 2015ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی رخسانہ مخالفین کو شکست دینے میں کامیاب رہیں۔ آج کل 2021ء میں ہونے والے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

سوال: اب تک کن نامور شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا؟

رخسانہ کہتی ہیں کہ سیاست جذباتی انسان کا کام نہیں۔ اسکے لیئے صبر اور سیاسی داؤپیچ کا آنا بہت ضروری ہے۔ اپنے سیاسی کیریئر میں رخسانہ بیگم زکیہ شاہ نواز، نگار بیگم، عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر عطیہ عنائیت اللہ اور سارہ افضل تارڑ کے ساتھ حافظ آباد کے نمائدے کے طور پر مختلف پراجیکٹس پر کام کرچکی ہیں۔

سوال: رسپیکٹ فار سپیشل پرسنز کب قائم کی؟

بلدیاتی نمائندہ ہونے کی وجہ سے رخسانہ ہر وقت عام عوام کی خدمت میں مصروف رہتی ہیں۔ لوگوں کے سرکاری اداروں میں پھنسے کاموں سے لے کر تھانہ کچہری انکا روزانہ کا معمول ہے۔ رخسانہ نے ماضی میں سنی ویلفیئر سوسائٹیی، سایہ ویلفیئر سوسائٹی اور وومن لیڈر شپ آرگنائزیشن کے نام سے مختلف این جی اوز قائم کیں۔جنھوں نے حافظ آباد کی خواتین کی فلاح و بہبود کیئے بہت کام کیا۔ پھر محسوس کیا کہ علاقے میں خصوصی افراد کی رہنمائی کیلئے کوئی نمائندہ تنظیم نہیں۔ اس طرح رسپکٹ فار سپیشل پرسنز کی بنیاد پڑی۔ ادارہ چھوٹے کاروبار کیلئے خصوصی افراد کو آسان اقساط پر قرضے فراہم کرتا ہے، خصوصی افراد کے معذوری کارڈز، شاختی کارڈز، سکول اور کالجز میں داخلے، سرکاری اداروں میں پھنسے کام، علاج معالجہ، مدد گار آلات کی فراہمی اور شادی بیاہ کے کاموں میں مدد اور معاونت فراہم کرتا ہے۔

سوال: خواتین کی "ماڈل شاپ” کیوں بنائی؟

چھ سال قبل رمضان کے مہینے میں رخسانہ اس وقت کی وزیر صحت سارہ افضل تارڑ کے ساتھ ماڈل بازار کا دورہ کر رہی تھیں۔ غریب خواتین چھوٹی چھوٹی ٹوکریوں میں مختلف اشیاء فروخت کیلئے لائی ہوئی تھیں جنھیں گزرتے لوگ لات مار کر سائڈ پر کردیتے تھے۔ وزیر صحت کو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا۔ رخسانہ نے کہا کیوں نہ ماڈل بازار میں خواتین کو بھی دکانیں فراہم کی جائیں۔ سارہ نے کہا کہ اسکے لیئے رول ماڈل کی ضرورت ہے۔ جب تک کوئی خاتون گھر سے باہر نکل کر کامیابی سے کاروبار نہیں کرے گی اس وقت تک علاقے کی خواتین کو اس جانب راغب کرنا مشکل ہے۔ رخسانہ نے دکان چلانے کی حامی بھر لی۔ اسطرح ماڈل شاپ کا آغاز ہوا۔ شاپ میں گفٹس، ڈیکوریشنز اور خواتین کی مخصوص اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔ ماڈل شاپ نے حافظ آباد کی خواتین کو اتنا متاثر کیا کہ اس وقت علاقے کے ہر بازار میں خواتین دکانیں کھولے بیٹھی ہیں اور اپنے گھر کا نظام چلا رہی ہیں۔

سوال: کپڑے کا کاروبار کیسے چلاتی ہیں؟

سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے رخسانہ کا ملک کے مختلف شہروں میں آنا چانا رہتا ہے۔ شاپنگ کے دوران مختلف شہروں میں چیزوں کی قیمتوں کا فرق بھی پتہ چلتا رہتا ہے۔ کپڑوں کی خریداری کے دوران رخسانہ نے کچھ تاجروں کے نمبرز لے لیئے اور اپنے علاقے میں وٹس آیپ کے ذریعے کپڑے کا کاروبار شروع کر دیا۔ تاجروں کے پاس سردی، گرمی، شادی بیاہ کے جب بھی نئے ڈیزائن آتے ہیں رخسانہ کو وٹس ایپ کر دیتے ہیں۔ رخسانہ اپنا مناسب منافع رکھ کر ان تصاویر کو مختلف وٹس ایپ گروپس میں شیئر کر دیتی ہیں۔ اس طرح گھر بیٹھے ہی کپڑے کے کام سے مناسب آمدنی حاصل کر لیتی ہیں۔

سوال: اپنے دور اقدار میں کون سے اہم کام کیئے؟

رخسانہ دس سال سے ذیادہ عرصہ بلدیاتی نمائندہ رہی ہیں۔ سڑکیں بنوانا، گلیاں پکی کروانا، نالیاں بنوانے سے لے کر ہزاروں چھوٹے بڑے کام ہیں جو رخسانہ کے دور اقتدار میں ہوئے ہیں۔ حافظ آباد کے بڑے مسائل میں ایک اہم مسئلہ وڈیرہ سسٹم ہے۔ جو آج بھی مظبوطی سے رائج ہے۔ یہ نظام غریب کو نسل در نسل مزارع بنا کے رکھتا ہے۔ عورت کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔
رخسانہ نے ایسے بہت سے مزارعوں کو غلامی سے نجات دلائی کسی کو گدھا گاڑی لے کر دی، تو کسی کو موٹرسائیکل رکشہ لے کر دیا۔ کسی کو چھوٹا کاروبار شروع کرنے میں مدد فراہم کی تو کسی کو نوکری دلائی۔ گھروں میں قید خواتین کو آزادی دلوائی۔ جائیداد میں خواتین کے حق کیلئے آواز بلند کی۔ بے سہارا خواتین کیلئے دارلامان بنوایا۔ حافظ آباد کیلئے دو عدد سپیشل ایجوکیشن کے سکولوں کی منظوری لی۔ گھریلو صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کے فروغ کیلئے بہت کام کیا۔

سوال: حافظ آباد کی خصوصی خواتین کو تعلیم، صحت اور روزگار کے حوالے سے کن مسائل کا سامنا ہے؟

رخسانہ کہتی ہیں کہ خصوصی افراد کیلئے شہروں کی زندگی گاؤں سے بہت مختلف ہے۔ حافظ آباد ابھی تک ملک کے پسماندہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں خصوصی کیلئے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رخسانہ نے اپنی کوششوں سے حافظ آباد میں سپیشل ایجوکیشن کا سکول، وکیشنل ٹریننگ سینٹر اور آسان شرائط پر قرضوں کی سکیمز متعارف تو کروائیں ہیں۔ لیکن آگہی کے فقدان کی وجہ سے لوگ ان سے بہتر فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ رخسانہ کے ذہن میں بہت سے نئے منصوبے گردش کر رہے ہیں۔ 2021ء کے الیکشز جیت کر جلد منصوبوں کا آغاز کریں گی۔

سوال: فارغ اوقات میں کیا کرتی ہیں؟

ہانڈی روٹی، کپڑے دھونے، سلائی کڑھائی سے لے کر گھر کی صفائی تک سارے کام خود کرتی ہیں۔ فارغ وقت کم ہی میسر آتا ہے۔ فارغ وقت بچوں کے ساتھ گزارنا پسند کرتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ لڈو، تاش اور کیرم کھیلنا فارغ اوقات کے مشاغل میں شامل ہیں۔

سوال: سیروتفریح کا کتنا شوق ہے؟ کتنے ممالک گھوم چکی ہیں؟

وطن عزیز کے تمام اہم سیاحتی مقامات کی سیر کرچکی ہیں۔ حج اور عمرے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ پورا مڈل ایسٹ گھوم چکی ہیں۔ عربوں کی ثقافت اور ترقی سے بہت متاثر ہیں۔ مستقبل میں یورپ گھومنے کی خواہش رکھتی ہیں۔

سوال: کھانے میں کیا پسند کرتی ہیں؟ کیا کیا بنا لیتی ہیں؟

معذوری کے باوجود گھر کے سارے کام خود کرتی ہیں۔ نئے نئے کھانے بنانا پسند کرتی ہیں۔ یوٹیوب سے نئے کھانوں کی ترکیبیں دیکھتی رہتی ہیں۔ دیسی، چائنینز، لبنانی اور افغانی ہر قسم کے کھانے بنا لیتی ہیں۔ رخسانہ کے ہاتھ کی بریانی، قورمہ، نہاری اور پلاؤ پسند کیئے جاتے ہیں۔

سوال: خصوصی خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گیں؟

معذوری کے ساتھ کامیاب زندگی گزارنے والی خواتین وہ بہادر عورتیں ہیں جنھوں نے مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ خصوصی خواتین مشکلات سے ڈرنے کے بجائے انکا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو جاننے کی کوشش کریں۔ پھر ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے آپ کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے اوپر بھروسہ کرنا سیکھیں کیونکہ خوداعتمادی ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔

Comments are closed.