جھوٹ پہ جھوٹ

شمشاد مانگٹ

پاکستان میں آل پارٹیز کانفرنس اور پریس کانفرنس کسی بھی وقت ہو سکتی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ دونوں میں سچ خال خال ہی ہوتا ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس میں ہر پارٹی کا ایجنڈا اپنا اپنا ہوتا ہے اور پریس کانفرنس میں موقف اپنا اپنا ہوتا ہے ۔حال ہی میں ہونیوالی آل پارٹیز کانفرنس میں سب نے اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت کام کیا اور سب ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہوئے نظر آئے ۔

اصولی طورپر یہ ادھوری آل پارٹیز کانفرنس تھی کیونکہ اب تک جب بھی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا اس میں وہ پارٹی یا پارٹیاں شریک نہیں ہوئیں جو اقتدار کی بھینس کے دوردھ کا مزہ لے رہی تھیں اور جنہیں یہ دودھ نصیب نہیں ہوپاتا وہ آل پارٹیز کانفرنس بلا لیتے ہیں ۔

ملک اور قوم کے لئے ایک مکمل آل پارٹیز کانفرنس بلانا بہت ضروری ہے اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تمام فریقین کی شمولیت ضروری ہے ۔مثال کے طورپر طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے جو آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اس میں عسکری قیادت ، عدلیہ اور اقتدار میں موجود پارٹی بھی شریک ہو اور میڈیا کو بھی اس میں لازمی طورپر شامل کیا جائے ۔

یہ کانفرنس بے شک ایک سال چلے لیکن ہمیشہ کے لئے یہ طے کردیا جائے کہ سیاسی جماعتوں کی ریڈ لائن کیا ہو گی ، میڈیا کس حد تک جاسکے گا ، عدلیہ اور عسکری قیادت اپنے اختیارات کو کہاں تک استعمال کرسکیں گی اور طے کردیا جائے کہ جو بھی ریڈ لائن کراس کرے گا اسے کون اور کس طرح روکے گا ؟۔

اگر یہ طے نہ کیا جاسکا تو پھر بے مقصد آل پارٹیز کانفرنس ہوتی رہیں گی اور دفاعی اداروں کو اقتدار کی سیڑھی کے طورپر استعمال کیا جاتا رہے گا اور انہیں بیچ چوراہے گالی بھی دی جائے گی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ روز ہونیوالی آل پارٹیز کانفرنس میں وہ تمام پارٹیاںشریک تھیں جنہوں نے ہر دور میں عسکری اداروں کاسہارالیا اور طاقت کے مرکز پر قبضہ جمایا لیکن اس آل پارٹیز کانفرنس میں سب نے ملکر انہی عسکری اداروں کو ہدف تنقید بنایا اور سیاست میں ملوث ہونے کا تصدیق شدہ الزام لگایا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ عسکری قیادت کی طرف سے مسلسل دو دن اس کی تردید ٹی وی پر دکھائی گئی کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔عسکری ترجمان کو یہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ اب تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہمارے دفاعی ادارے ہردور میں کسی نہ کسی طرح سیاسی کردار کے حامل رہے ہیں ۔

ذوالفقارعلی بھٹو کیخلاف جو نوستارے بنائے گئے تھے وہ قطعی طورپر بھٹو کے وہ ستارے نہیں تھے جو ان دنوں گردش میں تھے ۔اس کے بعد آئی جے آئی کی تشکیل اور 1993ءمیں میاں نوازشریف کا استعفیٰ جنرل کا کڑ فارمولہ کے تحت ہوا ۔1997ءمیں جب میاں نوازشریف کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے الزام لگایا کہ یہ جعلی مینڈیٹ ہے ۔

بعد ازاں یہ مینیڈیٹ جنرل پرویز مشرف کی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہو گیا ۔اگر عسکری ترجمان کی تردید کو درست مان لیا جائے تو پھر چوہدری پرویز الٰہی کے اس انٹرویو کا کیا ہوگا جس میں انہوں نے کہا کہ جنرل شجاع پاشا نے مسلم لیگ (ق) کے اراکین توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کیے ۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی راہداریوں میں ابھی تک اصغر خان کیس انصاف کا طلب گار ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ٹھیلے والے سے لے کر اہم ترین سرکاری عہدیداروں تک سب سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔اس لئے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ملک و قوم کا بھی فائدہ کیا جائے اور تمام اداروں کے سربراہان کو جھوٹ کے مرض سے بھی بچایا جائے ۔

عسکری ترجمان کی طرف سے کی گئی تریدیں اس حد تک ہی حقیقت ہیں جتنا کہ سیاسی جماعتوں کے اس نعرے میں ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔اس لئے تردید کو چھوڑ کر مرض کا علاج تلاش کیا جائے وگرنہ سب کو جھوٹ بولنا پڑیں گے اوراندھیری رات میں عسکری قیادت سے ملاقاتیں کرنیوالے تپتے سورج کی موجودگی میں عسکری قیادت کو برا بھلا کہتے رہیں گے ۔اس وقت ملک میں کرونا سے زیادہ جھوٹ پھیلا ہوا ہے ۔

Comments are closed.