جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا
فوٹو : فائل
اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا، عدالت اُنھیں عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا،اور بطور جج ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے.
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ میں کہا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری تعیناتی کے وقت درست ڈگری نہیں رکھتے تھے، ان کی تعیناتی غیر قانونی تھی۔ عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا، طارق محمود جہانگیری جج کا عہدہ رکھنے کے اہل ناتھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وزارت قانون کو ہدایت دی جاتی ہے کہ جسٹس طارق جہانگیری کو بطور جج ڈی نوٹیفائی کیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جسٹس طارق جہانگیری کی جب ہائی کورٹ جج تقرری ہوئی اس وقت ان کی ایل ایل بی کی ڈگری درست نہیں تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ جسٹس طارق جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بننے کے اہل ہی نہیں تھے، تمام متفرق درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔ جسٹس طارق جہانگیری فیصلہ سنائے جانے سے آدھا قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سے روانہ ہوگئے تھے۔
قبل ازیں جسٹس جہانگیری ڈگری تنازع کیس کی سماعت ہوئی، وکلا کے دلائل سن کر ججز چیمبر میں روانہ ہوگئے، بیرسٹر صلاح الدین ، اکرم شیخ ، راجہ علیم عباسی و دیگر نے دلائل دیے۔ درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے دلائل دیے، بیرسٹر صلاح الدین نے دو درخواستوں پر اکرم شیخ نے ایک درخواست پر دلائل دیے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کیس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کی استدعا کی اور مؤقف اپنایا کہ جواب جمع کرانے کے لیے 30 دن کا وقت دیں ، یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ہے، اس عدالت کے سامنے قابل سماعت نہیں، میرٹ پر دلائل نہیں دے رہا، صرف اپنی درخواستوں پر دلائل دے رہا ہوں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ڈیڑھ سال سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ڈگری جعلی ہے، ڈگری جعلی ہے، آج رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے یہاں تسلیم کیا کہ ایل ایل بی پارٹ ون ٹو تھری میں وہ موجود تھے.
رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے یہ کہا ہے ان کی ڈگری کے پراسس میں بےضابطگی تھی۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی نے تسلیم کیا ڈگری جاری کی جس کو کینسل کیا، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے تسلیم کیا یہ فیک ڈگری کا نہیں بلکہ بے ضابطگی پر کینسل کرنے کا کیس ہے۔
انہوں نے استدلال کیا کہ یہ ابھی طے ہونا ہے کہ کراچی یونیورسٹی 40 سال بعد سچ کہہ رہی ہے یا نہیں، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے سندھ ہائیکورٹ کے سامنے حکم امتناع پر اعتراض نہیں کیا۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرایا لیکن یہ چھپایا کہ سندھ ہائیکورٹ نے ڈیکلریشن معطل کر رکھا ہے.
رجسٹرار کراچی یونیورسٹی کے حقائق چھپانے پر ان کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے کراچی یونیورسٹی کا ڈیکلریشن سمیت تمام کاروائی معطل کر رکھی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے دلیل دی کہ یہ عدالت اس صورت حال میں کیس کی کاروائی آگے نہیں بڑھا سکتی۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر صلاح الدین سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ابھی جواب جمع نہیں کرایا ؟
بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ کل تین بجے ایچ ای سی کا ریکارڈ ہمیں ملا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے سندھ ہائی کورٹ میں جواب جمع کرایا یہاں کیوں نہیں کرا رہے۔ وکلا کے دلائل سن کر ججز چیمبر میں روانہ ہوگئے اور بعد ازاں فیصلہ سنا دیا گیا.
Comments are closed.