جب سننے والا کوئی نہ ہو گا

طارق عثمانی

ہر آدمی اپنے آپ کو نمایاں کرنا چاہتا ہے، کوئی ارسطو بننا چاہتا ہے، کوئی آج کے دور کا سقراط ہے۔ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی خواہش ہر دور میں انسان کی سب سے بڑی خواہش رہی ہے۔ زمانہ قدیم کے لوگوں کا اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار تلوار ہوا کرتا تھا۔ اس وقت آدمی اپنی تلوار کے جاہ و جلال اور بہادری دکھا کر اپنے نمایاں ہونے کے جذبہ کی تسکین کیا کرتا تھا اور بہت سارے لوگوں میں صرف چند ہی لوگ اپنی بہادری اور فن کی بنیاد پر نمایاں ہوتے تھے۔

ان کی مردانگی، بہادری اور شمشیر زنی کے فن کو شعراء اور قصیدہ گو ایسے انداز میں بیان کرتے کہ وہ اپنے زمانہ کے مشہور لوگ کہلائے جاتے بعد کے زمانوں میں گھڑ سواری، نیزہ بازی اور دیگر جوہر دکھانے والے بھی اپنے اپنے دور کے مشہور لوگ کہلائے گئے۔
آج جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ڈیجیٹل , سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک ہر کسی کی رسائی ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں اپنا فن دکھانے اور خود کو نمایاں کرنے کا پورا پورا موقع میسر ہے۔

میری طرح کے نااہل لوگ بھی لکھنے اور بولنے کے ایسے کمالات دکھا رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے ایسی ایسی غلط معلومات ایک انسان سے دوسرے انسان تک بے خوف و خطر پہنچائی جارہی ہے کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہی نہیں۔ نفرتوں کی زمین میں لوگ ایسی کانٹے دار فصل بو رہے ہیں جس سے ہر کسی کا ذہن زخمی ہے، دلوں پر نفرتوں کے خنجر اس بے دردی سے چلائے جارہے ہیں.

آج کے انسان میں انسانی،حیوانی اور شیطانی تمیز نا ممکن نظر آتی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا پر دکھائی جانے والی بے ہودہ حیوانی خرافات انسان کے اندر سے انسانی صفات کو ختم کررہی ہے۔ تقریر، تحریر اور بولنے کی آزادی نے ایسے ایسے سورماؤں کو پیدا کردیا ہے جو ہر مقدس رشتے سے آزاد خود نمائی کے پہاڑ پر کھڑے ہو کر پورے کے پورے سماج کو للکار رہے ہیں اپنی خطابت کے زور پر لوگوں کو تقسیم در تقسیم کی.

ایسی اندھی کھائی میں دھکیل رہے ہیں جہاں انسانوں کے لیے روشنی کی ایک بھی کرن نہیں ہے چار سو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ آج کے لفظی سورماؤں کی حقیقی زندگی کو دیکھیے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ذاتی نمائش کا وہ مکروہ دھندہ ہے جس سے دین و ملت کی خدمت سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے، ایسے لوگوں کا حق و انصاف کا دعویٰ ان کے اپنے عمل سے حق و انصاف کی وہ سر عام نظر آنے والی پامالی ہے جو ہمیں ہر روز دکھائی دیتی ہے۔

آج دیکھا جائے تو سوشل میڈیا، بلاگرز،وی.لاگرز پر حق پرستی کی باتیں کرنے والے بہت سے لوگ دوسروں کو حق دلانے کا جھانسہ دے کر یا دلاسہ دے کر صرف اپنے حقوق کے حصول کی دوڑ میں دوڑتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو لوگوں کے اجتماعی حقوق کی کسی بھی طرح کی ذرہ برابر فکر نہیں ہے، ان لوگوں کو دوسروں کے حقوق کی بات سے اپنے ذاتی حقوق کا حصول ہے جو حق انھیں اپنی زمہ داریاں یاد دلائے اس حق کا آج کی دنیا میں کوئی خریدار نہیں، ایسے لوگ ان کے نزدیک ناقابلِ برداشت ہیں۔

آج کا سوشل میڈیا درس و تدریس، فلاح انسانیت سے بھرا پڑا ہے ایک کے بعد ایک پوسٹ نصیحت اور وعظ سے بھرپور آگے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ لیکن عمل میں ہم کہیں بہت ہی دور دکھائی دیتے ہیں۔ ہر کسی کا قلم حرکت میں ہے، لاؤڈ اسپیکر الفاظ کے دریا بہا رہے ہیں، ٹیلی ویژن اسکرینز سے پورے چوبیس گھنٹے میں اٹھنے والا طوفان سماج میں مہنگائی کے طوفان میں کسی بھی طرح کی کمی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ اخبارات کے کالم اور اداریے انسانوں پر ہوتے ظلم کی ایسی ایسی بھیانک داستانیں بیان کررہے ہیں کہ سماج میں لوگوں پر ظلم اور زیادتی کے واقعات میں پھر بھی کمی نہیں آتی.

ایسا لگتا ہے جیسے ان لفظوں کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں رہ گئی۔ اخبارات و جرائد میں چھپنے والے لفظ بے وقعت دکھائی دیتے ہیں انسانی کوتاہیوں اور لغزشوں کا محاسبہ کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں۔ اس لیے کہ ہم ایجنڈہ جرنلزم کے دور سے گزر رہے ہیں، ہر صحافتی ادارے کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے اور وہ اپنے اپنے ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر ہی اپنی اپنی پالیسیوں پر کاربند ہیں۔ عوام کے لیے صحافت کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ آج کے تیز رفتار دور میں جہاں لوگ پڑھنے کے بجائے سن کر اپنی رائے قائم کرنے کے عادی ہوئے تھے.

ڈیجیٹل میڈیا نے ہمارے ہاں ایسے ایسے سقراط پیدا کردیے ہیں جنھوں نے سستی شہرت کے لیے جھوٹ کے کاروبار سے پیسہ تو بنا لیا ہے لیکن ایسے لوگوں کی وجہ سے حقیقی ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹس کو شدید نقصان پہنچا ہے اب لوگوں کا اس سننے سنانے کے پلیٹ فارم سے بھی آہستہ آہستہ یقین اٹھنے لگا ہے۔ مستقبل میں جھانک کر دیکھنے کی اگر کسی میں صلاحیت ہے تو آنے والا یہ منظر بالکل صاف دکھائی دے رہا ہے جب پوری انسانی آبادی سنانے والوں میں تبدیل ہو جائے اور سننے والا کوئی نہ رہے۔

Comments are closed.