تنظیم سازی بدنام ہوگئی

شمشادمانگٹ

وقت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے،ماضی میں تنظیم سازی کا عمل بہت ہی عمدہ اور صف بندی سمجھا جاتا تھا لیکن طلال چوہدری نے اس کے معنی بدل کر رکھی دیئے ہیں .

یقینی طور پر جماعت اسلامی ،جمعیت علماءاسلام سمیت دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس کا متبادل تلاش کرنے میں جت گئی ہوں گی کیونکہ اب اگر کسی بھی پارٹی یا سیاسی رہنما کی طرف سے تنظیم سازی کا عمل شروع کرنے کا دعوی کیا گیا تو لوگ اس پر تھو تھو کریں گے اور وہ جماعت اور جماعت کا سربراہ پاکستانی معاشرے میں اپنا مقام اور مرتبہ کھو بیٹھے گا۔

ذوالفقارز علی بھٹو جب اپنی پارٹی کو موثر کر چکے تھے تو انہوں نے نچلی سطح تک اس کی تنظیم سازی کا کام بڑی عمدگی سے کیا گیا تھا مگر اس دور میں گورنر پنجاب ملک غلام مصطفے کھر جب طلال چوہدری جیسی ”ملاقاتیں“ کیا کرتے تھے تو ان کا سٹاف ہر مہمان اور ٹیلی فون کال پر جواب دیا کر تے تھے کہ گورنر صاحب ”اعلیٰ سطحی “ میٹنگ کررہے ہیں ۔

اس جواب کے بعد ملنے والا یا ٹیلی فون کرنے والا مطمئن ہو کر خاموش ہو جاتا تھا اور کھر صاحب کی ”اعلیٰ سطحی“ میٹنگ کے ختم ہونے کا انتظار بہت احترام سے کیا جاتا۔البتہ جب محترمہ تہمینہ درانی نے ”میڈا سائیں“ میں کھرصاحب کے کرتوتوں سے پردہ اٹھایا تو پیپلز پارٹی کے جیانلوں اور سیاسی رہنماﺅں کو بہت افسوس کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ وہ ”نچلی سطحی“ کی میٹنگوں کو اعلی سطححی سمجھتے رہے۔

ایسی ہی طبیعت رکھنے والے ایک مذہبی رہنما جب”ملاقاتیں“کیا کرتے تھے تو ان کے عملے کے تمام اراکین کو ہدایت ہوتی تھی کہ فون آئے یاکوئی ملنے آئے تو اسے بتائیں کہ ”علماءکرام“ سے بات چیت ہو رہی ہے ان کی زندگی میں ہی لوگوں کو ”علماءکرام“ کا پتہ چل گیا تھا اس لئے لوگ ان سے ملاقات کا وقت لیتے وقت چھیڑ خوانی کے طور پر پوچھ لیا کرتے تھے کہ اگر آج ”علماءکرام“ سے خصوصی ملاقات نہ ہو تو ہم ملاقات کے لئے آ جائیں ۔

اس پر وہ صاحب مسکرا کر ہاں یا ناں میں جواب دیا کرتے تھے۔بہرحال ان کے احباب میں ”علماءکرام“ سے ملاقاتوں کا شوق بھی بہت بڑھ گیا تھا۔وفاقی دارالحکومت میں تعینات ایک سینئر ڈاکٹر کے عشق کی داستانیں بھی بہت مشہور ہوئیں اور وہ طلال چوہدری کی طرح ملاقاتوں کو راز رکھنے کیلئے بہانہ کیا کرتے تھے کہ مریض کو ”چیک“ کرنے جارہا ہوں اور بعض اوقات وہ سرکاری امورکی انجام دہی کے دوران اپنے سٹاف آفیسر کو بتا کر مریض کو اپنے کمرے میں ہی ”چیک “ کرنا شروع کر دیتے تھے ۔

بات جب زیادہ پھیلنا شروع ہوئی تو انہوں نے ”چیکنگ“ کی ہوم سروس شروع کر دی ۔البتہ شہرت خراب ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ انہیں اپنے بابے ہی ”چیک“کروانا شروع ہوگئے تھے تا کہ فریقین ہرطرح کی چیکنگ سے محفوظ رہیں۔

میں جب گاﺅں میں تھا ایک زمیندار گھرانے کے نوجوان کا ایک خاتون سے معاشقہ عروج پر تھا۔موصوف ہفتے میں ایک بار طے شدہ ملاقات کیلئے جب روانہ ہو تے تو دوستوں کو بتا کر جاتے کہ ”دوائی“ لینے جارہا ہوں۔آخر وہ برا دن آہی گیا جب وہ ”دوائی“ لیتے ہوئے پکڑے گئے اور پھر پورے گاﺅں میں ”دوائی “ بدنام ہوگئی اور اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی ”دوائی “ کا ذکر کرنے سے گھبرانے لگے۔

اگر تنظیم سازی کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ بہترین اور جامع تنظیم سازی کا عمل جماعت اسلامی میں ہوا کرتا تھا اور اس سے پہلے پیپلز پارٹی بھی یونین کونسل کی سطح تک تنظیم سازی کا عمل کیا کرتی تھی ،مسلم لیگ (ن) اگرچہ نچلی سطح تک تنظیم سازی کی قائل نہیں ہے لیکن ڈویژن اور ضلع کی سطح پر ان کے عہدیدار بھر پور انداز میں موجود ہیں۔

اور یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اتنی تنظیم سازی نہیں کی جتنا اس کو بدنام کر دیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت ہر طرح کی تنظیم سازی کا حق خود رکھتی ہیں اور کسی دوسرے کو نہ دن میں اور نہ ہی رات کو تنظیم سازی کا حق ہے لہذا طلال چوہدری نے برے وقت سے نکلنے کے لئے ”تنظیم سازی “کو ڈھال بنا کر تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے لئے مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔

ایک صائب مشورہ یہ بھی ہے کہ آئندہ آل پارٹیز کانفرنس میں یہ بھی طے کر لیا جائیگا کہ تمام جماعتیں ”تنظیم سازی “ کا لفظ متروک کر کے نیا لفظ ”گروہ سازی“ یا ”گروپ بندی “ متعارف کرائیں اور ساتھ میں یہ بھی شرط لگا دی جائے اگر کسی بھی مردیا عورت نے ان الفاظ کی آڑ میں اپنے ناجائز مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی تو اس کے سیاسی حقوق سلب کر لئے جائیں گے اور متعلقہ پارٹی ایسے شخص کو ”نامرد“ بنانے پر بھی غور کر سکتی ہے۔

البتہ اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں طلال چوہدری کی تیزی سے ”تن سازی“ ہورہی ہے ۔اپنے مستقبل کا فیصلہ وہ ” تن سازی “ کے بعد ہی کریں گے ۔قوی امید ہے کہ آئندہ وہ کبھی بھی تنظیم سازی میں دلچسپی نہیں لے گے کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ” تنظیم سازی “ جان کی بازی بھی ہو سکتی ہے۔

Comments are closed.