بہترین ”تنظیم سازی“ پارٹ ٹو

شمشاد مانگٹ

بحیثیت پوری قوم ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بنیادی اصول یعنی ایمان ، تنظیم اور اتحاد اس وقت بہت کمزور دکھائی دیتے ہیں ، ہر شعبہ زندگی میں ایمان کی کمزور ترین پوزیشن ہے اور اتحاد تو ویسے ہی ہمارا پارہ پارہ ہوئے مدت بیت چکی ہے وگرنہ دنیا میں آ ج امت اس طرح بے یارو مددگار نہ ہوتی اور جہاں تک تنظیم کا معاملہ ہے تو اس کی دھجیاں طلال چوہدری نے اڑا کر رکھ دی ہیں ۔

کافی دیر سے محسوس کیا جارہا تھا کہ ملک و قوم کی ”تنظیم سازی“ اس قدر بری حالت میں کیوں ہے ؟ اب معلوم ہوا ہے کہ تنظیم سازی کے نام پر ہمارے لیڈر کون سے امور سرانجام دیتے ہیں ؟ ویسے طلال چوہدری اور مرزا جٹ کی کہانی میں دو قدریں مشترک ہیں ، اول یہ کہ دونوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور دوم یہ کہ دونوں کی” تنظیم سازی “محبوب کے قدموں میں محبوب کے بھائیوں نے کی ۔

مرزا جٹ اکثر و بیشتر اپنی محبوبہ صاحباں کے ساتھ الّوسیدھا کرنے کے لئے اکیلے ہی جایا کرتے تھے اور بدقسمتی سے جب صاحباں کے بھائیوں نے ”تھڑا“ دے کر مرزا جٹ کو قتل کردیا تو پھر کہا گیا کہ مرزا جٹ کے ساتھ اس کے بھائی ہوتے تو وہ قتل نہ ہوتا ۔

مگر مرزا جٹ جس کام کے لئے جاتے تھے کیا اس خفیہ کارہائے نمایاں کی انجام دہی میں بھائیوں کو لے جایا جاسکتا ہے ؟ ایسے کاموں میں محبوب کے بھائیوں سے مار تو کھائی جاسکتی ہے لیکن اپنے بھائیوں کی نگرانی میں ”تنظیم سازی“ کے امور سرانجام نہیں دیئے جاسکتے ۔اسی طرح جناب رانجھا صاحب نے ”تنظیم سازی“ کے جنون میں اندھا ہو کر اپنے کان پھڑوالئے ۔

ویسے تو یہ کام پھڑوانے والا قصہ جناب وارث شاہؒ کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اصل کہانی میں ہوسکتا ہے چاچا کیدو نے رانجھا حضور کے کان پکڑوائے ہوں ۔رانجھا نے ایک بار ہیر سے پوچھا کہ مستقل”تنظیم سازی“ کے لئے کوئی فارمولا بتائیں جس پر ہیر نے رانجھے کو یہ نسخہ کیمیا دیا تھا ۔

”میراپیو تینوں اوئے اوئے آکھے
اگوہاں ہاں جی کہی جاناں
ہوندا عاشقاں دے لیکھاں وچ لکھیا
دکھ درد مصیبتاں سہی جاناں“

بہرحال اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن درج بالا عاشقوں کی ”تنظیم سازی“ کے لئے منصوبہ بندی بہت ناقص قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ ان کے مد مقابل جناب مہیوال انتہائی زیرک عاشق واقع ہوئے کیونکہ انہوں نے ہر بار ”تنظیم سازی“ کے لئے سوہنی کو ایک پارٹی ورکر کی طرح ہمیشہ دریا پار ہی بلایا۔

سوہنی ہر بار ذاتی گھڑے پر رسک لے کر دریا پار کرتی رہی اور مہیوال کی ”تنظیم سازی“ سے متعلق میٹنگز میں شریک ہو کر اپنی محبت کا اظہار کرتی رہیں۔

مہیوال نے جو کام اپنے ذمہ لیا وہ صرف دریا سے مچھلی پکڑ کر سوہنی کے لئے پکانا تھا اور ایک بار جب مچھلی ہاتھ نہیں لگی تو مہیوال نے اپنی ران کا گوشت پکا کر پیش کردیا اور سوہنی اس سے متاثر ہوئی ۔

مہیوال کے اس عمل میں بھی اس کے جسم کی تمام ہڈیاں محفوظ ہیں۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ مچھلی”تنظیم سازی“ کے لئے بہت اہم ہے ۔

سوہنی پر جب برا وقت آیا تو اس کے گھر والوں نے پکے گھڑے کی جگہ کچا گھڑا رکھ کر اس ”تنظیم سازی“ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا ۔ اس کھیل میں مہیوال کو تنظیم سازی کے لئے کہیں بھی اور کسی بھی جگہ ذاتی رسک نہیں لینا پڑا ۔

یہ تو ہمارے کلچر اور ہمارے لوک قصوں میں موجود عاشقوں سے جڑی” تنظیم سازی“ کی کہانیاں ہیں لیکن آجکل میاں نوازشریف دفاعی اداروں اور عدالتوں کے باہر بیٹھ کربے دریغ ”تنظیم سازی“ کررہے ہیں ۔

میاں نوازشریف کی تقلید کرنیوالوں کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف کی لفظوں کی گولہ باری سے ادارے گھبرائے ہوئے ہیں جبکہ دفاعی اداروں اور حکومت پاکستان اب میاں نوازشریف سمیت دیگر شریفوں کی مستقل”تنظیم سازی“ کیلئے ایک طویل مدتی منصوبے بنارہی ہے ۔

خبریں آرہی ہیں کہ پاکستان کے دفاعی اداروں کی ”تنظیم سازی“ کے لئے میاں نوازشریف کو بھارت ، اسرائیل اور امریکہ سمیت کچھ عرب مہربان بھرپورسپورٹ کررہے ہیں ۔جنگ اس وقت عروج پر ہے اور بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ زیادہ بہتر ”تنظیم سازی“ کس کی ہوئی ہے ۔

البتہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے پاکستان کے دفاعی اداروں سے ملکر پوری ”اے پی سی“ کی تنظیم سازی کا فیصلہ کرلیا ہے۔بلاول بھٹو بیرون ملک ہونے کی وجہ سے اے پی سی کو نہیں گرما سکیں گے اور آصف علی زرداری ملک میں رہ کر اے پی سی میں شریک مولانا فضل الرحمن اور دیگر کو ٹھنڈا ٹھار کردیں گے ۔

ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ طلال چوہدری کی ”تنظیم سازی“ میں ایک ”رند“ کا اصل کمال ہے اور بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ :
” باہر ہیں حد فہم سے رندوں کے مقامات،
تجھ کو کیا خبر کون کہاں جھوم رہا ہے“

جاری ہے۔

Comments are closed.