بندہ تابعدار نہیں، کھلاڑی ہے


سلیم صافی

بندہ تابعدار تھا، بہت تابعدار، حد سے زیادہ تابعدار لیکن منزلِ مقصود پانے سے قبل، منزل حاصل کرنے کے بعد وہ کھلاڑی بن کر مسلسل کھیل رہا ہے۔ جن کی تابعداری کی بات کی جاتی ہے اور جنہیں سرپرست یا سہولت کار کہا جاتا ہے، وہ پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ بنانا چاہ رہے تھے کیونکہ پرویز خٹک نے پانچ سال اُن لوگوں کو بہت خوش رکھا تھا لیکن بندے نے ذاتی انا یا خوف کی وجہ سے پرویز خٹک کو دوبارہ وزیراعلیٰ نہیں بنایا۔ ایک حساب سے پرویز خٹک نے پختونخوا کی تاریخ بدل دی اور حکومت کرنے والی پارٹی کو دوبارہ جیت دلوا دی بلکہ سیٹیں بھی بڑھا دیں لیکن استحقاق رکھنے اور سہولت کاروں کی خواہش کے باوجود اُنہوں نے پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ نہیں بنایا۔ بندہ نہیں چاہتا تھا کہ پرویز خٹک جیسا صاحبِ حیثیت بندہ وزیراعلیٰ ہو جو کسی بھی معاملے میں اُن کو نہ کر سکے یا پھر براہِ راست سہولت کاروں سے رابطہ رکھے۔ اِس لئے اُس نے ایک گمنام اور نااہل شخص محمود خان (بزدار پلس کو) وزیراعلیٰ بنایا، حالانکہ سہولت کار اور سرپرست اِس نامزدگی پر خوش نہیں تھے اور آج بھی خوش نہیں۔ اِسی لئے یہ کہنا غلط ہے کہ بندہ تابعدار ہے۔ بندہ تابعدار نہیں بلکہ بہت بڑا کھلاڑی ہے جو ”اُن“ سے کھیل رہا ہے۔

سرپرستوں اور سہولت کاروں کی خواہش تھی کہ پنجاب میں تگڑا وزیراعلیٰ ہو۔ پہلی ترجیح پرویز الٰہی اور دوسری ترجیح فواد چوہدری تھے لیکن بندے نے عثمان بزدار کو میدان میں اُتار دیا۔ تب سب لوگ دنگ رہ گئے اور بعد میں اُن کی کارکردگی سے حیران اور پریشان ہونے لگے۔ سب سے زیادہ پریشان سرپرست اور سہولت کار ہیں اور پچھلے دو برسوں میں اُنہوں نے ہر طریقے سے اُن کو ہٹانے کے لئے دبائو ڈالا لیکن عثمان بزدار کے بارے میں بندہ مصر ہے کہ وہ جادو کی چھڑی سے پنجاب کو ٹھیک کردیں گے۔ یوں سہولت کار اور سرپرست کہہ کہہ کر تھک گئے بلکہ تھک ہار کر اب اُنہوں نے کہنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اِس لئے بندہ تابعدار نہیں بلکہ بہت بڑا کھلاڑی ہے جو ”اُن“ سے بھی کھیل رہا ہے۔

گزشتہ بار وزارتِ اطلاعات کی ٹیم بدلنے کا وقت آیا تو سرپرست اور سہولت کار سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو وزیر اطلاعات بنانا چاہ رہے تھے لیکن اِن کو یہ خیال آیا کہ انوار کاکڑ اُن سے زیادہ سرپرستوں اور سہولت کاروں کے راستے پر چلیں گے۔ اِس لئے شبلی فراز کو وزارتِ اطلاعات سونپ دی اور ساتھ سرپرستوں کو راضی رکھنے کے لئے عاصم سلیم باجوہ کو وزیر مملکت بنا دیا۔ اب کی بار سرپرستوں اور سہولت کاروں کی خواہش تھی کہ پرویز خٹک کو وزیر داخلہ بنا دیا جائے۔ بندہ ٹال مٹول کرتا رہا تو اُنہوں نے فواد چوہدری کو اِس منصب کے لئے تجویز کیا لیکن اچانک بندے نے شیخ رشید کا اعلان کر ڈالا۔ اِسی لئے بندہ تابعدار نہیں بلکہ بہت بڑا کھلاڑی ہے اور ”اُن“ کے ساتھ خوب کھیل، کھیل رہا ہے۔

اِن کے ایک دست راست اور رازدان مشیر کی پوزیشن مقتدر حلقوں کے ہاں کلیئر نہیں ہو رہی تھی، چنانچہ بندے نے امریکہ کے دورے میں اُنہیں ٹرمپ اور اُن کے داماد کے سامنے اپنے خصوصی نمائندے کے طور پر متعارف کرایا اور امریکیوں کو یہ پیغام دیا کہ کوئی خاص اور راز کی بات کرنی ہو تو اُن کے ذریعے کی جائے۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کے یہودی داماد اور اِس مشیر کا چینل استوار کیا گیا۔ یوں سرپرست اور سہولت کار حیران رہ گئے اور اُنہوں نے اِس مشیر کو بادل نخواستہ قبول کیا۔ اس لئے بندہ تابعدار نہیں بلکہ بہت بڑا کھلاڑی ہے جو بھرپور طریقے سے کھیل رہا ہے۔

بندے نے اُسامہ بن لادن کو شہید کہا تو سمجھدار لوگوں نے مشورہ دیا کہ وہ اُسے سلپ آف ٹنگ (Slip Of Tongue)قرار دے دیں کیونکہ عالمی سطح پر ملک کو نقصان ہوگا لیکن کابینہ میں اُنہوں نے وزرا کو کسی طرح کی وضاحت سے یہ کہہ کر منع کیا کہ مجھے ووٹ امریکیوں سے نہیں بلکہ پاکستانیوں سے لینا ہے تاہم کچن کیبنٹ میں جب بات زیر بحث آئی تو اُنہوں نے کہا کہ میں سوچ سمجھ کر ذرا پنڈی والوں کو اُن کی اوقات یاد دلانا چاہ رہا تھا کیونکہ آج کل وہ کچھ آپے سے باہر ہورہے ہیں۔ اِسی لئے بندہ تابعدار نہیں بلکہ بہت بڑا کھلاڑی ہے جو ”اُن“ سے بھی کھیل رہا ہے۔

قومی احتساب بیورو چونکہ اِن کے حق میں استعمال ہورہا تھا لیکن براہِ راست کنٹرول اِن کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ بندہ یہ کنٹرول بھی ہاتھ میں لانا چاہ رہا تھا۔ جب چیئرمین نیب نے دونوں طرف ہوائیں چلنے کی بات کی تو بندہ اِس کنٹرول کے لئے زیادہ متحرک ہونے لگا۔ اِس دوران انہوں نے نیب کے خلاف ایک ٹویٹ بھی کی کہ وہ سرکاری افسران کو کام کرنے نہیں دے رہا۔ یہی وقت تھا کہ ایک خاتون نے چیئرمین نیب سے متعلق ایک وڈیو کلپ اِن کے پورٹل پر ڈال کر زنجیر عدل ہلا دی۔ اِن کا یہ خیال تھا کہ بندہ چیئرمین نیب کا محاسبہ کرکے اُن کو انصاف دلوائے گا لیکن بندے نے خاتون کو ملاقات کے لئے بلا لیا اور اُس کے پاس جتنی آڈیو وڈیو ریکارڈنگز تھیں، سب کی سب قبضے میں لے لیں۔

چیئرمین نیب کو ایک جھلک دکھانے کے لئے وہ وڈیو ایک ٹی وی چینل پر چلا دی۔ وڈیو چل جانے کی وجہ سے وہ خاتون پورے ملک میں رسوا تو ہوئیں لیکن اُنہیں انصاف نہیں ملا۔ اب اُس مواد، جس میں صرف چیئرمین نیب نہیں بلکہ نیب کے کئی دیگر لوگوں کے خلاف بھی شواہد (ذاتی نہیں انتظامی اور مالی) ہیں، کی بنیاد پر وہ بھی چیئرمین، ڈی جی اور ترجمان کو اشاروں پر چلا رہا ہے۔ چنانچہ جب سرپرست اور سہولت کار اپوزیشن کے ساتھ قوم کے وسیع تر مفاد میں معاملات بہتر بنانے کے منصوبے پر کام کررہے تھے، اِس پورے منصوبے کو بندے نے نیب پر اِس مواد کی بنیاد پر دبائو ڈال کر سبوتاژ کردیا۔ اس لئے ﷲ کے بندو! بندہ تابعدار نہیں بلکہ بہت بڑا کھلاڑی ہے۔

گزشتہ دو برسوں میں اپوزیشن کے تقسیم ہونے کی وجہ سے بندہ بھی مطمئن تھا اور سرپرست بھی سکون میں تھے۔ پی ڈی ایم کا بننا دونوں کے لئے سرپرائز تھا۔ میاں نواز شریف کے اچانک بگڑ جانے اور سخت بیانیے نے سرپرستوں کو اور بھی پریشان کردیا چنانچہ اُنہوں نے اپوزیشن کے ساتھ رابطے شروع کردیے۔ ضروری نہیں کہ وہ رابطے بندے کی مخالفت میں ہورہے تھے بلکہ شاید وہ اُن کے لئے فضا کو سازگار بنانا چاہ رہے تھے لیکن بندے کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اپوزیشن سے مفاہمت کا مطلب یہ ہوگا کہ اُن کی ضرورت ختم ہو گئی۔

چنانچہ وہ سہولت کاروں اور سرپرستوں کو دبائو میں لانے کے لئے دھمکیوں پر اُتر آئے۔ ایک دن بیان دیا کہ اگر نواز شریف کی جگہ میں ہوتا تو جنرل ظہیر کو فارغ کردیتا۔ دوسرے دن بیان دیا کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آرمی چیف کون ہے اور ڈی جی آئی ایس آئی کون ہے؟ اگلے دن خالد بن ولید کو سپہ سالار کے منصب سے ہٹانے کی بات کی۔ مقصد اور کچھ نہیں بلکہ دوسری پارٹی کو دفاعی پوزیشن پر لانا تھا۔ اس لئے ﷲ کے بندو! بندہ تابعدار نہیں بلکہ بہت بڑا کھلاڑی ہے جو سب کے ساتھ بہت اچھی طرح کھیل رہا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.