ایک چرواہے کی حاضر دماغی
سٹیفن کوبریل
آئیے آپ کو بتاتا چلوں کہ کسی کی بروقت سوچ نے پورے گاؤں کو سیلاب سے کیسے بچایا۔
وادی شِگر میں واقع ایک دور افتادہ گاؤں "ہُرچُس” ا یک چراوائے کی جرات اور بروقت سوچ کی بدولت بڑے سانحے سے بچ گیا۔یہ بات اگست کے وسط کی ہے جب موسلا دھار بارشوں نے پاکستان بھر میں تباہ کن سیلاب برپا کیے تو پورے پورے علاقے افراتفری کا شکار ہو گئے۔
تقریباً 2 لاکھ 30 ہزار گھر متاثر ہوئے، 790 پل منہدم ہو گئے اور 2 ہزار 800 کلومیٹر سے زائد پر محیط سڑکیں تباہ ہو گئیں۔ کھیت اور مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے اور لوگوں کا زریعہ روزگار راتوں رات ختم ہو گئے۔
لیکن شمالی پاکستان کی شِگر وادی میں واقع چھوٹے سے گاؤں ہُرچُس میں ایک شخص کی ہمت اور حاضر دماغی تباہی کو روک لیتی ہے۔
ابوذر حسین جو اب تیس کی دہائی کے وسط میں ہے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ شِگر کے پہاڑوں میں بھیڑ بکریاں چراتے گزار چکا ہے ۔ اس کا خاندان زرعی زمین، خوبانی کے باغات اور مویشیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔
اس دن دوپہر کے وقت ابوذر گاؤں سے اوپر ڈھلوانوں پر اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ تھا۔ پہاڑوں کی خاموشی ہر طرف چھائی ہوئی تھی۔
چار مرتبہ اس نے پانی کی چھوٹی چھوٹی دھاریں بہتی دیکھیں اسے کوئی غیر معمولی بات نہ لگی اور کوئی خطرہ بھی محسوس نہ ہوا۔ لیکن شام چھ بجے کے قریب یہ سکون ٹوٹ جاتا ہے۔
گاؤں کی چھوٹی سی مسجد جس کی چھت پر لاؤڈ سپیکر لگا ہے اور اس کے عقب میں برف سے ڈھکا پہاڑ دکھائی دیتا ہے یہی وہ جگہ تھی جہاں سے سیلاب نے ابتدا کی۔
وادی میں ایک گہری اور گرجدار آواز گونج اٹھتی ہے.
ابوذر بتاتا ہے کہ
میں ایک ٹیلے پر چڑھا اور دیکھا کہ ایک بہت بڑا اور تباہ کن سیلاب نہر کے پار سے گاؤں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میں نے خود سے پوچھا ‘میں اپنے خاندان اور دوسرے گاؤں والوں کو کیسے بچاؤں؟
ابوذر کا اپنا گھر بھی سیلاب کی زد میں تھا۔ ان کے دس افراد پر مشتمل خاندان اور تقریباً ایک ہزار دیگر دیہاتیوں کے پاس بچنے کے لیے صرف چند منٹ تھے۔
موبائل سگنل نہ ہونے کے باعث ابوذر مزید اونچائی پر چڑھ جاتا ہے۔ نیٹ ورک ،سگنل تلاش کرتا ہے مگر وادی میں پانی کے شور کے سوا مکمل خاموشی ملتی ہے شام کا وقت تھا جب زیادہ تر لوگ گھروں میں ہوتے ہیں اور کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ فون ہاتھ میں لیے ابوذر بار بار کوشش کرتا ہے اور دعا مانگتا ہے کہ سگنل مل جائیں۔
آخرکار کال مل جاتی ہے۔ چند ہی لمحوں میں مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے پورے گاؤں میں اعلان گونج اٹھتا ہے
“سیلابی پانی آ رہا ہے، اونچی جگہوں کی طرف منتقل ہو جائیں!
مکین جلدی سے محفوظ مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے چند مکان تباہ ہو جاتے ہیں، خوبانی کے باغات سیلابی ریلے کی نذر اور کھیت پتھروں اور کیچڑ تلے دب جاتے ہیں۔ لیکن شکر اس بات کا کہ اس دن "ہُرچُس” میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوتا۔ اس
گاؤں والوں کے لیے سیلاب کوئی نئی بات نہیں وہ 2020 میں بھی اس کے اثرات جھیل چکے ہیں۔ کچھ دیہاتیوں کو خدشہ ہے کہ
“اگر 2026 میں دوبارہ سیلاب آیا تو ہر گھر تباہ ہو سکتا ہے۔”
سیلاب سے پہلے، گاؤں کے اوپر پہاڑ کے قریب ایک نہر میں صاف پانی کا چشمہ بہتا تھا۔
کمیونٹی لیڈر مہدی حسن بتاتے ہیں کہ
“چشمے کا پانی پائپ کے ذریعے گاؤں تک آتا تھا۔ اس سال آنے والا سیلاب پورا پائپ اور ٹینک بہا لے گیا۔”
اب ندی اور نالیاں کیچڑ اور پتھروں سے بھر چکی ہیں۔ اگر پائپ اور ٹینک کی مرمت ہو جائے تو صاف پانی دوبارہ دستیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن سردیاں قریب آ رہی ہیں اور کم ہوتا درجۂ حرارت مرمت کے کام کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔
مہدی حسن تشویش کے ساتھ کہتے ہیں:
“بچوں میں پہلے ہی بخار کی شکایات بڑھ رہی ہیں۔”
خوف ہر طرف منڈلا رہا ہے۔ زراعت جو ہُرچُس کی زندگی کی بنیاد ہے مسلسل خطرے میں ہے۔ اب دیہاتی انسانی ہمدردی کی تنظیموں اور اداروں سے مدد کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔پورے پاکستان میں بروقت انتباہ اور تیز ترین اقدامات نے ہزاروں جانیں بچائیں۔
85ہزار سے زائد افراد کو پیشگی وارننگ پیغامات موصول ہوئے اور 26 ہزار افراد کو خطرناک علاقوں سے بحفاظت نکال لیا گیا یہ سب مقامی حکام اور رضاکاروں کی کوششوں سے ممکن ہوا۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 2025 میں ملک نے ڈیجیٹل ابتدائی انتباہی نظام کے ذریعے آفات سے نمٹنے کی تیاری کو نمایاں طور پر وسعت دی۔
این ڈی ایم اے نے ایک مقامی موبائل فون نیٹ ورک کے اشتراک سے سیلاب، موسلادھار بارشوں اور ہیٹ ویوز کے بارے میں 30 کروڑ سے زائد الرٹس جاری کیے تاکہ بروقت انتباہ ملک بھر کی کمیونٹیز تک پہنچ سکیں اور قدرتی آفات کے لیے مجموعی تیاری بہتر ہو سکے.
جیسا کہ انگریزی روزنامہ بزنس ریکارڈر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
ڈی ای ڈبلیو-3 (مون سون) کے تحت جیو فینسڈ ایس ایم ایس الرٹس خاص طور پر 2 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد کو بھیجے گئے جو زیادہ خطرے والے علاقوں میں رہتے ہیں جس سے انہیں بروقت احتیاطی اقدامات اور ضروری انخلا میں مدد ملی۔ اس ہدفی طریقۂ کار نے مقامی حکام اور کمیونٹیز کے درمیان ہم آہنگی بہتر بنائی اور مون سون کے سیلاب کے دوران ممکنہ جانی و مالی نقصان کم کرنے میں مدد ملی.
اسی دوران انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز جیسی تنظیمیں بھی ابتدائی انتباہی نظام کے ذریعے کمیونٹیز کی مدد میں پیش پیش رہیں۔

اسلام آباد میں آئی ایف آر سی کے پروگرام مینیجر منظور علی کہتے ہیں کہ
جب سیلاب آیا تو
ہلال احمر پاکستان (پی آر سی ایس) کے رضاکار سب سے پہلے متاثرہ علاقوں میں پہنچنے والوں میں شامل تھے۔
آئی ایف آر سی کی معاونت سے ہلال احمر پاکستان نے فوری طور پر وسائل متحرک کیے
12 ہزار 800 مریضوں کا علاج کیا، 36 ہزار افراد کو پانی، صفائی اور حفظانِ صحت (WASH) کی سہولیات فراہم کیں اور تقریباً 2 لاکھ افراد کو اشیاء خوراک مہیا کی گئیں۔
جوں جوں سردیاں قریب آ رہی ہیں توجہ بحالی کے اقدامات پر مرکوز ہو گئی ہے جن میں صحت کی خدمات، WASH، نقد امداد اور روزگار کی بحالی شامل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ
"ابوذر” نے صرف اپنے خاندان کو بچانے کے لیے قدم نہیں اٹھایا، بلکہ انہیں اپنی پوری کمیونٹی کی گہری ذمہ داری محسوس ہوئی۔میرے مترجم نے بتایا کہ
وہ اپنے ہاتھ اطمینان سے گھٹنوں پر رکھے
کہتے ہیں کہ
اگر میں انہیں خبردار نہ کرتا تو بہت سی جانیں ضائع ہو سکتی تھیں۔
ابوذر حسین کی بروقت سوچ نے خوف کو عمل میں بدل دیا اور گاؤں کے مکینوں کو عین وقت پر خبردار کر دیا۔ اگرچہ کچھ مویشی اور بہت سے باغات ضائع ہو گئے لیکن ان کا خاندان اور پورا گاؤں محفوظ رہا۔
جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی (وہ اب بھی اگلے سیلاب سے خوفزدہ ہیں) مگر ان کی کہانی ایک سچائی بیان اور ثابت کرتی ہے کہ
جب آفت آتی ہے تو جرات اور اجتماعی یکجہتی زندگی اور تباہی کے درمیان فرق بن سکتی ہے۔
ایک چرواہے کی حاضر دماغی
Comments are closed.