(ایک فحش تحریر 18+ بھی نہ پڑھیں (پہلا حصہ

وقار حیدر

آج بات کرتے ہیں ہمارے معاشرے میں پنپتی ایک غیر مشرقی صورتحال کی، غیر مشرقی اس لیے لکھا گیا ہے کہ یہ صورتحال مغرب کا خاصہ بن چکی ہے اور اب دنیا بھر میں سرائیت کر رہی ہے ، ہمارے معا شرہ میں پچھلے دس سال سے کچھ خاص قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں جن کو تاحال زیر بحث لانا برا ہی نہیں فحش تصور کیا جاتا ہے ، لیکن بہرحال اس نئی پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینا ہی ہوگا اس سے پہلے کہ معاشرہ مزید بیمار ہو جائے یا پھر کچھ گھر دوزخ بن کر اجڑ جائیں۔

نئے دور میں جہاں انٹرنیٹ تک رسائی عام کی گئی ہے کہ عوام تک معلومات کاذخیرہ ایک سنگل کلک کے ذریعے پہنچ رہا ہے وہیں پر مغربی آزادی مشرقی روایات و اقدار کا جنازہ نکالنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے ، مجھے نہ تو مسلہ مغرب و مغربی روایات سے ہے اور نہ ہی مشرق کی ختم ہوتی روایات سے ،، جب سے انٹرنیٹ کے ذریعے سیکس کے طریقے مغرب سےپہنچا شروع ہوئے ہیں تب سے مشرق میں دو قسم کی صورتحال پیدا ہو رہی ہیں ،، ایک ہمارے جوان جو دیکھتے ہیں وہی کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اور دوسرے اگر یہ سب مشرق میں نہیں کر پاتے تو مغرب کا گاہے بگاہے چکر لگاتے رہتے ہیں ۔

بات ہے اورل سیکس کی ، کچھ روز پہلے دو واقعات نظر سے گزرے تو سوچا اس پر ضرور لکھا جائے ، ہمارے معاشرہ میں ڈاکٹرز کو انتہائی پڑھا لکھا جانا جاتا ہے ، لیکن پورن موویز دیکھنے والے یہ پڑھے لکھے افراد بھی اس عادت میں ایسے جکڑے جاتے ہیں کہ نکلنا تو دور دوسرے کو بھی اس میں کھینچے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ اسلام آباد کے ایک ڈاکٹرصاحب ہیں شادی کی تو کچھ ہی عرصہ بعد گھریلو ناچاقی شروع ہو گئی انکی بیوی مہکے زیادہ رہنے لگی ، مسلہ اور سیکس کا تھا ڈاکٹر صاحب کو پسند تھا اور بیوی یہ بیہوہ اور غلیظ کام کرنے کو راضی نہ تھی ، مجبورا کچھ عرصہ تو بیوی اس عمل کا شکار بنی لیکن آخر بات بگڑ گئی۔

ذہنی دباو کا شکار یہ لڑکی جب ایک خاتون ڈاکٹر کے پاس پہنچی تو اپنا مسلہ بیان کیا ، اس سمجھدار ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ آئندہ جب بھی تمہارا شوہر تمہیں اس بات پر مجبور کرے تو اگلی صبح یہ میڈیسن لے لینا تمہارے منہ خراب ہو جائے ، اس نے اس مشورہ پر عمل کیا ، ڈاکٹر صاحب نہ جب اپنی بیوی کا یہ حال دیکھا تو علاج پھر وہی حرکت پھر وہی عمل لیکن آخر چھوڑ گئے۔

، لڑکی کا گھر بچ گیا لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا ،،
دوسری جانب ایک اور جوان لڑکی کی ازدواجی زندگی پورن موویز کی نذر ہو گئی ، شوہر کو نہ صرف پورن پسند تھیں بلکہ وہ بیوی کو ساتھ بیٹھا کر دیکھتا اور ویسے ہی عمل کرنے پر مجبور کرتا، مشرقی اور اسلامی بنیادوں پر قائم رہنے والی لڑکی کی جانب سے جب اس عمل کو روکنے کی ہر کوشش شوہر نے دیکھی تو اگلے دوسال تک وہ بیوی کو ساتھ بیٹھا کر خود لذتی کرتا لیکن حق زوجیت ادا کرنا چھوڑ دئیے ، آخر طلاق ہوگئی۔،

کچھ عرصہ پہلے پڑوسی ملک بھارت میں ایک واقعہ پیش آیا جب بیوی نے خاوند کا الہ تناسل دانتوں سے کاٹ دیا، اس خاتون کا تعلق نہ تو کسی پڑھی لکھی فیملی سے تھا اور نہ ہی اس نے یہ سب دیکھ رکھا تھا لیکن ہر غلیظ حرکت پر حساس اور سمجھدار لوگوں کے خیالات و ردعمل تقریبا ایسا ہی ہوتا ہے۔

مسلے کے حل کےلئے جب ہماری بات ایک سائیکالوجسٹ سدرہ اختر سے ہوئی تو انکا کہنا تھا کہ یہ مسائل اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں ، لوگ اس کے عادی ( Addict) ہوتے جا رہے ہیں لوگوں میں گروپ سیکس اور اس 3 افراد کا یہ عمل عام ہوتا جا رہا ہے (Threesome, Group sex) جس سے معاشرے میں مزید بگاڑ ہو رہا ہے ، جنسی بے راہ روی کے ساتھ ساتھ جنسی خواہشات کی تکمیل نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ پورن موویز ہی ہیں جہاں عورت کے فگز کو انتہائی خوبصورتی سے بنا کر پیش کیا جاتا ہے جوکہ عام حالات اور خاص طور پر مشرقی عورت کےلئے ممکن نہیں ہے ، عورت کے ویسے خدو خال کے حصول کےلئے مرد ہر دوسری عورت کی طرف راغب ہوتے ہیں اسی صورتحال کی وجہ سے جب وہ اپنی بیوی سے یہ سب لذتیں حاصل نہیں کر پاتے تو دوسری عورت کی جانب رخ کرتے ہیں ۔

اس سارے عمل کے جسمانی ، ذہنی ، معاشرتی اور جذباتی اثرات بھی ہوتی ہے ، جسمانی طور پر کمزوری ، نقاہت، بے چینی ، پیلاہٹ ،اور ہڈیوں کی کمزوری جبکہ ذہنی طور پر ایسے لوگ ذہنی دباو ، ڈپریشن، فریسٹریٹڈ نظر آتے ہیں نیند کا پورا نہ ہونا اور باعث ندامت یہ لوگ آخر کار لوگوں سے نظریں بھی نہیں ملاپاتے ، معاشرتی طور پر کام اور پڑھائی پر توجہ ختم ہو جاتی ہے جبکہ لوگوں کے ساتھ انٹریکشن میں بھی انکو کافی غیریقینی صورتحال سے دوچارہونا پڑتا ہے ، جذباتی طور پر یہ لوگ تنہائی پسند ہوجاتے اور جذبات میں غیر معمولی طور پر فرق ظاہر ہوتا ہے۔ آپکو شاید لگے ایسا نہیں ہوتا لیکن جب آپکو سکون میسر نہیں ہوتا اور جسمانی اور ذہنی سٹسفیکشن نہیں ملتی تو لوگ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔

تحریر فحش ضرور ہے لیکن غور کیجئے یہ ہمارے ہی معاشرہ کی ہی ، ہم اس سے کب تک نظریں چرائیں گے ، کب تک زندگیاں تباہ ہوتی رہیں گی ، کب تک عزتوں کو اس شرعی طریقے سے پامال کیا جاتا رہے گا ؟ کیا اس بدترین صورتحال پر بات نہیں کرنی چاہیے ؟کیا ہمیں اپنا احتساب نہیں کرنا چاہیے ؟ کیا ہمیں اس کا حل تلاش نہیں کرنا چاہیے ؟ یہ تحریر تو مردوں کے حوالے سے تھی اگلا حصہ خواتین کے حوالے سے ہوگا کہ وہ بھی اسی عادت کا شکار ہیں۔

(جاری ہے)

Comments are closed.