ایوارڈز بہت ملے لیکن نوکری نہ ملی،شازیہ بتول

ثاقب لقمان قریشی

نام: شازیہ بتول
تعلیم: ایم اے (فائن آرٹس)
رہائش: کوئٹہ (ہزارہ کمیونٹی)
عہدہ: صدر و بانی بریکنگ بیرئیر فار وومن ود ڈس ایبلٹی
اعزازت: 1۔ تمغہ امتیاز (2010) 2۔ پروفیسر عالم مصباح ایوارڈ (2006) 3۔ نیشنل یوتھ ایوارڈ (2008) 4۔ ایکس پیڈیشن ایوارڈ (2010) 5۔ ہزارہ ریسورس سینٹر کی طرف سے نیشنل یوتھ ایوارڈ (2015) 6۔ لیونگ نو بیہانڈ ایوارڈ (2016) 7۔ ادارہ خواتین اقوام متحدہ کی طرف سے ایوارڈ (2018) 8۔ صوبائی حکومت کی جانب سے وومین ڈیویلپمنٹ ایوارڈ (2019)

خاندانی پس منظر:

والد مقامی تاجر اور پراپرٹی ایڈوازر تھے۔ خاندان دو بھائیوں پر مشتمل ہے۔ دونوں بھائی تاجر ہیں اور بیرون ملک مقیم ہیں۔

شازیہ بتول سے، زمینی حقائق ڈاٹ کام ،کیلئے کیا گیا انٹرویو

سوال: معذوری کا شکار کیسے ہوئیں؟

تین سال کی عمر میں بیمار ہوئیں۔ ہسپتال لے جانے پر ایکسپائر انجکشن لگا دیا گیا جسکی وجہ سے ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ملک کے تمام بڑے ہسپتالوں سے علاج کروایا گیا۔ علاج میں خلل نہ آنے کی خاطر والدین نے ایک سال سے زیادہ عرصہ کراچی میں قیام کیا۔ پھر کسی نے لاہور جانے کا مشورہ دیا تو چھ ماہ لاہور میں بھی قیام کیا۔ لیکن کوئی بہتری نہیں آئی۔ آج بھی والدین کو کہیں سے کسی علاج کا پتہ چلے تو فوری طور پر رابطہ کرتے ہیں۔

سوال: بچپن کیسا گزرا؟ کون سے کھیل پسند تھے؟

شرارتی نہیں تھیں۔ گھر میں کھیلے جانے والے کھیل کھیلا کرتی تھیں۔ گڑیوں سے کھیلنا، انھیں تیار کرنا انکے کپڑے تیار کرنا پسندیدہ ترین کھیل تھا۔

سوال: سکول کی زندگی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

سب سے مشکل کام سکول کے انتخاب کا عمل تھا۔ والدین ایسا سکول منتخب کرنا چاہتے تھے جو گھر کے نزدیک ہو، رسائی کے مسائل کم سے کم ہوں، سٹاف مدد گار اور تعلیم کا معیار بھی بہترین ہو۔
گھر کے نزدیک ترین سکول میں داخلہ ہوگیا۔ابتدائی سالوں میں بیساکھیاں نہ استعمال کرنے کی وجہ سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بریک ٹائم میں جب سب بچے کلاس سے باہر چلے جاتے تو برا محسوس کرتیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچوں سے دوستی ہوتی چلی گئی۔خوش اخلاق ہونے کی وجہ سے شازیہ کے پاس بچوں کا جھرمٹ لگا رہتا تھا۔ بیساکھیاں پاس آ جانے کے بعد زندگی بہت آسان ہوگئی۔ اپنے سارے کام خود سے کرنے لگیں۔

سوال: کالج کی تعلیم کیسے مکمل کی؟

گھر کے نزدیک کوئی کالج نہ ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کوئٹہ میں داخلہ لینا پڑا۔ کالج گھر سے بہت دور ہونے کی وجہ سے وین لگوانا پڑی۔ کالج میں ہر پریڈ دوسری کلاس میں ہونے کی وجہ سے مشکل پیش آتی۔ لیکن شازیہ بہادری سے مشکلات کا سامنا کرتی رہیں۔
ایف اے اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی کے فائن آرٹس پروگرام میں داخلہ لے لیا۔ یونیورسٹی بس میں آیا جایا کرتی تھیں۔ کلاسز اوپر نیچے ہونے کی وجہ سے بھاگ دوڑ لگی رہتی۔ اکثر بے تریب چلنے کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے پڑ جایا کرتے تھے۔ مگر پھر بھی ہمت نہ ہاری۔

سوال: لاہور سے ایم اے کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟

پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کی تعریف سن رکھی تھی۔ اسلیئے پینجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کا فیصلہ کیا۔ والدین سے اجازت لینا مشکل کام تھا، کیونکہ دوسرے شہر نہیں بلکہ دوسرے صوبے جانا تھا ، پھر اس سے پہلے ہاسٹل میں رہنے کا تجربہ بھی نہیں تھا۔ آرٹس سے میری محبت اور لگاؤ کو دیکھتے ہوئے والدین نے اجازت دے دی۔
شازیہ بتول نے بتایا کہ لاہور میں گزرا وقت میری زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔ ایک طرف یونیورسٹی اور ہاسٹل کے درمیان بہت فاصلہ تھا تو دوسری طرف رسائی کا کہیں کوئی انتظام نہ تھا۔
ابتدائی دنوں میں ہاسٹل کی زندگی بڑی دشوار لگی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئی۔ یونیورسٹی میں فائن آرٹس کی کلاسز اوپر والی منزل پر ہوا کرتی تھیں۔ کبھی سیڑھیوں سے گر جاتی تو خوب رویا کرتی تھی ۔لیکن اگلے دن دوبارہ کھڑی ہو جاتی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ اسی بھاگ دوڑ میں ایم اے کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ لاہور کے چیلنجز کا مقابلہ بیساکھیوں کے سہارے ناممکن تھا اسلیئے ویل چیئر استعمال کرنا پڑی۔ اس وقت سے اب تک ویل چیئر پر ہی زندگی گزار رہی ہوں۔

سوال: آرٹ کی اگر مختصر تعریف کی جائے تو کیا ہو گی؟

ہر انسان کے اندر چلنے والی جذباتی کیفیت کا نام آرٹ ہے۔ جو شخص اس کیفیت کا اظہار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے آرٹسٹ کہلاتا ہے۔ اظہار لکھ بول کر، ناچ گاکر، رنگوں سے کھیل کر کسی بھی طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔ آرٹ ان لوگوں میں بھی ہوتا ہے جو اپنی کیفیت کا اظہار نہیں کر پاتے۔ ایسے افراد عام لوگ کہلاتے ہیں۔
آرٹسٹ کہیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، کہیں اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات، کہں معاشرتی برائیوں، کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں تو کہیں مستقبل کے سپنوں کیلئے آرٹ کا سہارا لیتا ہے۔

سوال: کس پینٹنگ کو اپنی زندگی کی بہترین پینٹنگ قرار دیتی ہیں؟

اپنے کسی کام کو شاہکار قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اندر کا آرٹ زوال کا شکار ہے۔ آرٹسٹ کبھی اپنے کام سے مطئعن نہیں ہوتا ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں رہتا ہے۔ ہر پینٹنگ پر بھرپور محنت کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور اپنے ہر کام کو پسندیدہ ترین قرار دیتی ہوں ۔

سوال: کیا آپ موڈی ہیں؟

آرٹسٹ کی زندگی میں موڈ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اچھا کام خوشگوار موڈ اور ماحول میں ہی تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ سخت قسم کی موڈی ہوں موڈ نہیں ہوتا تو کئی کئی دن کام کو ہاتھ نہیں لگاتی۔

سوال: تمغہ امتیاز اور درجن سے زائد ایوارڈز کے باوجود نوکری حاصل کرنے میں کیوں ناکام رہیں؟

ہمارے ملک کا معاشی نظام کچھ اس طرح ہے کہ اس میں کمزور اور محروم طبقات اپنا جائز حق لینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔دو سال پرائیویٹ کالج میں پڑھا چکی ہوں ، پی ٹی وی میں دو سال ایسوسی ایٹ ڈیزائنر کے طور پر کام کر چکی ہوں ۔ متعدد چھوٹی نوکریاں اور انٹرنشپس کر چکی ہوں لیکن سرکاری نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔ اپنے شعبے کی ہر جاب پر اپلائی کرتی رہی ہوں لیکن ہر دفعہ نتیجہ نہ کی صورت میں ملتا رہا۔

سوال: بریکنگ بیرئیر فار وومن ود ڈس ایبلٹی کا خیال کیسے آیا؟ بی بی ڈبلیو کیا کام کرتی ہے؟

شازیہ بتول کا کہنا تھا2104 میں بوائز سکاؤٹ کے فنکش میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس فنکشن میں شازیہ نے پہلی مرتبہ اپنے جیسے بہت سے خصوصی افراد کو دیکھا۔ ان سے بات کی، انکے مسائل کو سنا۔ ان ساری باتوں نے انھیں بڑی تکلیف دی۔ کئی دنوں تک ان مسائل کے بارے میں سوچتی رہیں اور اپنے جیسے لوگوں کے حقوق کیلئے کام کرنے کاعزم کیا۔ اپنے اس خٰیال کو قریبی دوستوں سے ڈسکس کیا۔پھر آہستہ آہستہ میٹنگز کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان میٹنگز میں کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے اور مستقبل کے لائحہ عمل جیسے موضوعات پر بات کی جانے لگی۔
خصوصی افراد کے اس گروپ نے تعلیمی اداروں، پارک، شاپنگ سینٹرز وغیرہ پر ریمپس بنوانے سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہ سلسلہ تین سالوں تک چلتا رہا۔ 2017 میںاس گروپ نے بریکنگ بیریئر فار وومن ود ڈس ایبلٹی کے نام سے این-جی-او بنائی۔
بی-بی-ڈبلیو آگہی، کیپسٹی بلڈنگ، ٹریننگز اور امپاورمنٹ وغیرہ پر کام کر رہی ہے۔
سوال: کیا خصوصی افراد کے مسائل کو پیٹنگز کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش ہے؟
شازیہ رنگوں کو خیالات کے اظہار کا بہترین ذریعہ قرار دیتی ہیں دوسالوں سے خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر پینٹگز کی ایگزیبیشن کا خاص اہتمام کرواتی ہیں۔مقامی اور بین الاقوامی فورمز پر خصوصی افراد کے مسائل پر تیار کی گئی پینٹنگز بھیجتی رہتی ہیں۔

سوال: بلوچستان کی خواتین باہم معذوری کی تعلیم کے راستے میں اہم ترین رکاوٹیں کون سی ہیں؟

سب سے پہلے بلوچستان کا قبائلی نظام ہے جو خواتین کی تعلیم کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ آگہی کا ہے والدین آگاہ ہونگے تو خصوصی بچیوں کو گھر سے نکالیں گے، تیسرا مسئلہ غربت کا ہے بلوچستان میں غربت اور پسماندگی دوسرے صوبوں سے کہیں زیادہ ہے والدین الیکٹرک تو کیا مینول ویل چیئر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، چوتھا اہم مسئلہ سکولوں کی کمی کا ہے سکول آبادی کی تعداد سے کم اور گھروں سے دور ہونے کی وجہ سے بہت سی بچیاں حصول تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، پانچواں مسئلہ رسائی اور ٹرانسپورٹیشن کا سکولوں، کالجوں میں رسائی کے فقدان اور قابل رسائی ٹرانسپورٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر خواتین حصول تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔

سوال: بی-بی-ڈبلیو کو بی-بی-سی سمیت ساری دنیا میں پزیرائی ملی، بلوچستان کی صوبائی حکومت کی طرف سے کتنی حوصلہ افزائی ملی ہے؟

بی-بی-ڈبلیو کا کام مختلف اور پریکٹیکل تھا اسلیئے اس آئیڈے کو ساری دنیا سے پزیرائی ملی بی۔بی۔سی نے اس پر ایک سپیشل ڈاکومینٹری نشر کی۔ ساری دنیا سے مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے۔
صوبائی حکومت کی طرف سے بھر پور تعاون اور حوصلہ افزائی ملی۔ اس وقت بھی دو صوبائی محکموں (سپورٹس اینڈ افیئر اور کلچر اینڈ ٹورزم) کے ساتھ مختلف پراجیکٹس پر کام چل رہا ہے۔ اسکے علاوہ ہر ایونٹ پر حکومت بھر پور تعاون کرتی ہے۔

سوال: آج کل کس پرجیکٹ پر کام کر رہی ہیں؟

خواتین باہم معذوری کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتی ہیں اس مقصد کی تکمیل کے لیئے ایک وکیشنل ٹریننگ سینٹر بنانے جارہی ہیں، جو جنوری سے باقاعدہ آپریشنل ہوگا۔ سینٹر میں پینٹنگ، خطاطی، کیلی گرافی، سکیچنگ، فیشن ڈیزائنگ اور کمپیوٹر کورسز کروائے جائیں گے۔

سوال: کھانے میں کیا پسند کرتی ہیں؟ کیا کوکنگ بھی کر لیتی ہیں؟

دیسی، چائنیز، لبنانی اور افغانی کھانے پسند بھی کرتی ہیں اور پکا بھی لیتی ہیں۔ سبزیاں شوق سے نہیں کھاتیں۔ ہوٹلنگ کرنا پسند ہے۔ اکثر دوستوں کے ساتھ کھانے پینے کے پروگرام بناتی رہتی ہیں۔

سوال: فارغ وقت میں کیا کرتی ہیں؟

غزلیں سننا بہت پسند کرتی ہوں فارغ وقت میں مہدی حسن، نصرت فتح علی، غلام، علی، جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کی غزلیں سنتی ہوں ۔ اسکے علاوہ لونگ ڈرائیو اور دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا پسند ہے۔

سوال: خواتین باہم معذوری کو کیا پیغام دینا چاہیں گیں؟

خواتین باہم معذوری بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہیں۔ گھر میں رہنے سے یہ صلاحیتں نہ صرف ضائع بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ باہر نکلیں اپنے حقوق کو جاننے کی کوشش کریں، اردگرد کے ماحول کو اپنے لیئے اور اپنے جیسوں کیلئے قابل رسائی بنانے کی کوشش کریں۔

Comments are closed.