ایران پر امریکی پابندیاں


نادر بلوچ

امریکا نے ایران سے تیل درآمد کرنے والے ممالک کو اقتصادی پابندیوں کی ضمن میں دیا گیا استثناء بھی ختم کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ کے نئے فیصلے کے بعد ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کو بھی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تیل خریدنے والے ممالک میں جاپان، جنوبی کوریا، ترکی، چین اور بھارت شامل ہیں، وائٹ ہاؤس نے ان ممالک کو کہا ہے کہ یا تو ایران سے تیل کی خریداری ختم کر دیں یا امریکی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

ان ممالک کو اقتصادی پابندیوں پر دی گئی چھوٹ کی مدت 2 مئی کو ختم ہو رہی ہے اور حالیہ فیصلے کے بعد اس تاریخ میں توسیع کے امکانات ختم ہوگئے ہیں، تاہم یہ واضح نہیں کہ پہلے سے طے تجارتی معاہدوں کو منسوخ کر دیا جائے گا یا ایسے معاہدوں کو آخری معاہدے قرار دے دیا جائے گا۔

امریکا کے اس اعلان کے ساتھ ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 73.5 ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ دوسری جانب ایران نے ان پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے امریکی اعلان کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایران کی نگاہ میں ان پابندیوں کی کوئی وقعت نہیں۔

ایرانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تہران اپنے پارٹنر یعنی یورپی یونین اور ہمسائیوں کے ساتھ پابندیوں کے ممکنہ منافی نتائج پر رابطے میں ہے، تہران ان پابندیوں پر جلد اپنا ایک جامع ردعمل دے گا۔

دوسری جانب ایران کڑی پابندی کی صورت میں آبنائے ہرمز (سمندری راہداری) کو بند کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ اگر ایران یہ اقدام کرتا ہے تو دنیا کو 30 فیصد تیل کی سپلائی بند ہو جائے گی اور تیل کی قیمتیں ساتویں آسمان کو چھونا شروع ہو جائیں گی۔

ایران تنگ آمد بجنگ آمد کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور کوئی بڑا اقدام اٹھا سکتا ہے۔ ایران کے اس اقدام سے یقیناً صورتحال مزید خراب ہوگی اور ایک بڑی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی اور شائد یہ جنگ عالمی جنگ بھی بن سکتی ہے۔

امریکی پابندیوں میں جکڑا ایران نہ تو دوسرے ملکوں سے لین دین کرسکتا ہے، نہ ہی تیل فروخت کرسکتا ہے، حتیٰ تجارت بھی نہیں کرسکتا، فقط چند برسوں میں ایران کی کرنسی کی قدر تقریباً 300 فیصد تک گرچکی ہے، مگر امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر آمادہ نہیں۔

یقیناً ایک طرح سے مکمل طور پر معاشی جنگ اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ امریکا نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ملکر معاہدہ کیا تھا مگر بعد میں خود ہی اس معاہدے سے نکل گیا۔ ایران واشنگٹن کی عہد شکنی پر کڑی تنقید بھی کرتا ہے۔

عالمی منظر نامہ پر نگاہ رکھنے والے مبصرین امریکا کی ایران کے خلاف ان نئی پابندیوں کو تاریخ کی سب سے کڑی اور سخت پابندیاں قرار دے رہے ہیں، جس کے ناصرف ایران بلکہ خود خطے اور دنیا پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ممکن ہے کہ جون سے پہلے ہی تیل کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل کراس کر جائیں۔ امریکا ایک نئی مہم جوئی کی طرف سے تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہ اہداف جو وہ عراق، شام اور افغانستان میں حاصل نہیں کرسکا، اب وہ براہ راست ٹکر لیکر حاصل کرنا چاہتا ہے، ٹرمپ کی پشت پر بنیادی طور پر اسرائیل بیٹھا ہے، جو اسے شہ دے رہا ہے۔

دنیا میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ملک کی رسمی فوج کو دہشتگرد قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صورتحال تیزی سے کس طرف جا رہی ہے۔ چین، روس اور ترکی جو ایک بلاک کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور ایران کے پارٹنر تصور ہوتے ہیں، ان کا ردعمل بھی خطے کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ بھارت ایران سے تیل خریدنے کی ڈیل سے نکلتا ہے یا رہتا ہے یہ بھی اہم معاملہ ہے۔

Comments are closed.