اپوزیشن کی تحریک

حسین حقانی

تحریک کی رفتار برقرار رہی تو صفحے الگ ہو سکتے ہیں

گوجرانوالہ اور کراچی میں دو بڑے جلسوں کے بعد حزب اختلاف کی 11 جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)نے ملک میں سول ملٹری تعلقات کے ازسرنو جائزہ کے دروازے کھول دیئے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان کی سویلین حکومت کو کٹھ پتلی قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے جلسوں میں مقررین نے عمران خان کو ’سلیکٹڈ‘ قرار دیا جبکہ سینئر جرنیلوں کو ” سلیکٹرز “ قرار دے کر انہیں کھل کر ہدف تنقید بنایا گیا۔


پاکستان کی سیاسی زندگی کی یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام معاملات میں فوج کا گہرا کردار موجود ہے لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ پر کبھی اتنی براہ راست اور کھلے عام تنقید نہیں کی گئی جو اب حزب اختلاف کے سیاستدانوں خصوصاً سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کی جارہی ہے۔


سپریم کورٹ کو یہ تسلیم کرنے میں 22 سال لگے کہ 1990 کے انتخابات میں واقعتاً فوج نے مداخلت کی، اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ انتخابات میں ہیرا پھیری میں شامل تھے جن میں کچھ سیاستدانوں کو "الیکشن سیل” کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی گئی تھی اور اس کا مقصد بے نظیر بھٹو کے حکومت بنانے کے امکانات کا راستہ روکنا تھا۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کو جنرل بیگ کی طرف سے حمایت فراہم کرنے کے فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم کے عہدے پر پہنچے تھے۔1990 میں فوج کی مدد سے عروج پانے کے بعد نواز شریف اپنے پائوں پر خود کھڑے ہو گئے تھے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل کر لی اور اب وہ سویلین بالادستی کے لئے ایک جمہوری آواز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

تین بار منتخب ہونے اور تینوں بار ہی عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد نواز شریف نے دیکھا اور سمجھا ہے کہ پاکستان کی فوج سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ایک بار (1999 میں) فوجی بغاوت میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا لیکن دوسرے دو مواقع پر انہیں بہت واضح طور پر محسوس کئے جانے والے خفیہ منصوبوں کے ذریعے آئینی طریقوں سے عہدے سے ہٹایا گیا۔ 1993 میں سویلین صدر یا 2017 میں اقتدار سے ہٹائے جانے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کے بینچ پر عائد کرنے کی بجائے نواز شریف اب جرنیلوں کے ساتھ اختلافات کے ایک ایک واقعہ کو بیان کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی حکومت ختم کی گئی۔


1993 میں سپریم کورٹ نے جب اسحاق خان کے نواز حکومت کی برطرفی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تو اس کے بعد نواز شریف کو غلام اسحاق خان کے ساتھ مستعفی ہونا پڑا تھا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا۔


اپوزیشن اتحاد کی رکن ایک اور جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں کا نشانہ رہی ہے۔ اس کے قائدین چار بار منتخب ہوئے اور ایک بار (1977) میں فوجی بغاوت میں اقتدار سے ہٹا دیئے گئے، انہیں دو بار صدارتی حکم (1990 اور 1996) کے ذریعہ برخاست کیا گیا اور 2012 میں عدلیہ کے ذریعہ مکمل طور پر حکومت کو غیر موثر کر دیا گیا تھا۔

پی ڈی ایم میں شامل دیگر شراکت داروں میں پشتونوں اور بلوچوں کی نمائندگی کرنے والی مختلف قوم پرست جماعتیں شامل ہیں ان سبھی کو کسی نہ کسی موقع پر پاکستان میں ہم آہنگی کے نظریہ کو قبول کرنے سے انکار پر ’ملک دشمن‘ قرار دیا جا چکا ہے۔


2018 میں فوج کی قیادت نے سوچا کہ وہ آزادی حاصل کرنے کے خواہش مند سویلین سیاست دانوں کے ساتھ جھگڑا ختم کرنے کے لئے ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ حاصل کر لےں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے کرکٹ سے سیاست میں آنے والے عمران خان کی حمایت کی جو 1997 سے سیاست میں تھے مگر انہیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی تھی۔

وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے بے چین عمران خان کی کمزور سیاسی حمایت کو جانتے ہوئے یہ فرض کیا گیا کہ اگرنواز شریف کو سیاست سے غائب کردیا جائے اور پیپلز پارٹی کو بھٹو زرداری خاندانوں کے علاقے اندرون سندھ تک محدود کردیا جائے تو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کو ترجیحی پالیسیوں سے مختلف پالیسیوں پر عمل پیرا سویلین رہنمائوں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

حزب اختلاف کی موجودہ تحریک اس بات کی یاد دہانی ہے کہ سرکاری ملازمین کے ذریعے بنائی اور فوجی افسران کے ذریعے چلائی جانے والی سیاست قابل عمل نہیں۔ اگر موجودہ اپوزیشن کی مہم اپنی رفتار برقرار رکھتی ہے تو فوجی قیادت کو عمران خان کی حمایت سے دستبردار ہونا پڑ سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ پلٹ کر اسٹیبلشمنٹ کے نقاد بن سکتے ہیں لیکن عمران خان کی قربانی دینا آسان راستہ ہوسکتا ہے کیونکہ اپوزیشن کے حملے آرمی چیف ، جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے انٹیلی جنس سربراہ کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ سیاست دان اس قسم کی لڑائی کے عادی ہیں اور فوج کے جرنیل عادی نہیں۔


دنیا کے دوسرے ممالک کے فوجی رہنمائوں کی طرح پاکستان کی فوجی قیادت بھی تنازعات میں پڑنا پسند نہیں کرتی۔ مزید یہ کہ فوجی کمانڈروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی سیاسی گروہ یا پارٹی کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے لڑتے ہوئے دکھائی دیں۔

اپوزیشن کی مہم کے بارے میں پاکستانی فوج اور اس کی طرف سے بٹھائی جانے والی سویلین حکومت نے ابتدائی ردعمل میں فوج کی قیادت کو متنازعہ بنانے کی حزب اختلاف کی کوشش کو مسترد کیا ہے لیکن اس کی ایک حد ہوتی ہے کہ فوج وسیع سیاسی کردار بھی ادا کرے اور اپنی دخل اندازی کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ بھی رکھے۔

پاکستان1960کی دہائی کے اوائل سے بہت لمبا سفر طے کر چکا ہے جب ایوب خان کے دور میں فوج سے باہر کسی کو بھی فوجی انٹیلیجنس سروس کے سربراہ کا نام تک معلوم نہیں ہوتا تھا کیونکہ فوج کی داخلی تقرریوں کو ماس میڈیا میں مشتہر نہیں کیا جاتا تھا یہاں تک کہ ضیاءالحق کے دور میں فوجی جوان سامنے نہیں آتے تھے اور فوج کے سیاسی کام سویلین رابطہ کاروں کے ذریعے خفیہ طور پر کئے جاتے تھےلیکن اب فوج کے نسبتاً زیادہ نااہل سویلین شراکت داروں نے صرف اپنا جواز بنانے کے لئے اپنے پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کردیا۔

فوجی انٹیلیجنس اداروں کے اہل کاروں کی طرف سے سیاستدانوں اور صحافیوں کو براہ راست کالز اور ٹیکسٹ پیغامات اکثر ان کے سیاسی کردار کے غیر واضح ثبوت تردید کی بہت کم گنجائش چھوڑتے ہیں۔فوج کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی اہلیت کا بڑا انحصار ان کے لئے کام کرنے کو تیار سیاست دانوں اور صحافیوں پر ہے چونکہ اقتدار تک جانے والی راہ جی ایچ کیو سے ہو کر گزرتی ہے اس لئے یہ فطری بات ہے کہ اونچی خواہش رکھنے والے افراد اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کے لئے جرنیلوں اور انٹیلیجنس افسران کی مدد لیتے ہیں۔

جب انہوں نے اپنا وزن اتنے کھلے عام عمران خان اور ان کی پارٹی کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تو فوج کے بڑوں نے سوچا تھا کہ وہ ایک سویلین حکومت تشکیل دے رہے ہیں جو خود بھی ایک صفحے پر ہے۔ اس عمل میں جرنیلوں نے فوج کو ہر اس شخص سے الگ کرنے کا خطرہ مول لیا جوجرنیلوں کی حمایت کی حامل پاکستان تحریک انصاف کی مخالفت کرتا ہو۔اب جبکہ اپوزیشن نااہل سویلین حکومت اور فوجی قیادت کے مابین اتحاد کی باتیں کررہی ہے تو اس گٹھ جوڑ کی صرف تردید کافی نہیں ہوگا۔


نواز شریف کے حملوں اور اپوزیشن کی تحریک پاکستان کے فوجی رہنمائوں کو سیاست کے بارے میں اپنے موجودہ موقف پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر رہی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فوج بطور ایک ادارہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کی حمایت کے تنازعہ کو اتنا طول دینا پسند نہیں کرے گا۔ ماضی میں جب بھی پاکستان کی گلیوں میں لوگ جرنیلوں کے سیاسی کردار کے مخالف ہو جاتے ہیں تو نیا نظام آتا ہے۔ موجودہ تحریک کے نتیجے میں کیا نظام بنے گا اس کی ابھی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔

Comments are closed.