جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے، سچ بولو

محبوب الرحمان تنولی

میڈیا میں 31دسمبر کو پی ڈی ایم کے استعفوں کا شور مچا تھا۔ ۔ ٹی وی ٹاک شوز کو زبر دست موضوع ملا۔حکومت کے حامیوں اور مخالفوں نے کئی ٹی وی شوز کھڑکادیئے۔۔ تجزیہ کار جنوری کے پہلے ہفتے تک حکومت گرنے کی پشین گوئیاں کررہے تھے۔۔ کئی جوتشی تو31دسمبر کو عمران خان کا آخری دن قرار دے رہے تھے۔۔۔ اینکرز کا کیاہے وہ تو پیسے ہی باتیں کرنے کے لیتے ہیں۔۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے تو تمام استعفے اکٹھے کرکے 31دسمبر کو پی ٹی آئی حکومت کی آخری رسومات ادا کرنے کی نوید سنائی تھی۔

پھر کیا ہوا؟
لاہور کے جلسہ میں اپوزیشن اتحاد تمام تر شور شرابے کے باوجود اپنے 31دسمبر کو قائدین کے پاس استعفے جمع کرانے کے اعلان سے بھی بھاگ گیا۔۔۔مولانا فضل الرحمان نے فرمایا۔۔ جنوری یا فروری کے اوائل میں اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے تب استعفے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔ یعنی لانگ مارچ کا فیصلہ بھی ابھی ۔۔ اگر مگر میں ہے۔۔ یا جنوری یا فروری۔۔کیا پی ڈی اے تب تک اپنے استعفے اکٹھے کرکے انھیں ہلکی آنچ پر پکائے گی پھر پیش ہوں گے؟

مولانا کے الفاظ یاد رکھیئے اب کی بار انھوں نے استعفے دینے کی بات ہی گول کردی ۔۔ کہا ساتھ لے کر جائیں گے۔۔اور اگر قائدین کے پاس جمع کروا دیئے تو بھی انھیں استعفے دینا نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ استعفیٰ اپنی بلوغت کی عمر کو تب پہنچتا ہے جب و ہ اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی کے پا س پہنچ جائے ۔۔اس سے پہلے تو بے شک کاغذوں کے صندوق بھر کے رکھ لیں وہ استعفے نہیں کہلاتے ۔۔ محض ردی ہے یا بھڑکیں ہیں۔۔جس شخص کی حکومت گرانے پر زور ہے ان کے تو34ارکان اسمبلی نے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کردیئے تھے۔

جب پی ٹی آئی نے اتنی تھوڑی تعداد میں استعفے دیئے تھے تب تو الیکشن کرواکے کپتان اینڈ کمپنی کو گھر بٹھانا بہت آسان تھا ۔۔عمران خان کو پتہ تھا کہ ان کے استعفے منظور ہوئے تو حکومت آسانی سے نئے الیکشن کروا سکتی ہے۔۔۔ گیارہ جماعتوں کے اپوزیشن اتحاد کے پاس تو ارکان اسمبلی کی اتنی خاصی تعداد موجود ہے کہ جن کے استعفوں سے آئین کے مطابق تو حکومت گرانے کے امکانات بھی موجود ہیں ۔۔ لیکن ملکی حالات کو پیش نظر رکھیں تو تقریباً ناممکن نظر آتاہے ۔۔۔ ان استعفوں کے بوجھ کو اٹھاناتحریک انصاف کی حکومت یا وزیراعظم کیلئے بہت مشکل کام ہے۔

سچ یہ ہے کہ 11جماعتی اتحاد اپنی بڑی باتوں اور دعووں کے ساتھ خود مخلص نہیں ہے۔۔زرا نظر دڑائیں ۔خود مسلم لیگ ن کے اندر کے بیانیہ میں کتنا تضاد ہے۔ ۔بے شک مریم نواز چاچے کو سیم پیج پر گنتی رہیں۔۔ ۔ لوگوں نے شہباز شریف کی زبان سے وہ باتیں نہیں سنیں جو مریم نواز صاحبہ روز کرتی ہیں ۔۔۔ بلکہ اتنی زیادہ کررہی ہیں کہ ان کااثر ہی زائل ہوتا جارہاہے باشعور لوگ سمجھتے تو ہیں کہ خود شریف فیملی اس بیانیہ پر ایک نہیں ہے۔۔ جوپارٹی کی آئینی سربراہ نہیں ہیں وہ منتخب لوگوں کو استعفوں کیلئے ڈکٹیشن دے رہی ہیں۔۔پارٹی کے کتنے سینئر نائب صدور ہیں جو پارٹی منشور کے مطابق شہباز شریف کی غیر موجودگی میں پارٹی سربراہ ہوتے لیکن وہ کھوہ کھاتے لگے ہوئے ہیں۔

مریم نواز کہتی رہیں لاہور والو ! اب آپ پر ذمہ داری آگئی ہے ۔۔ کورونا کی پرواہ کئے بغیر نکلو گھروں سے۔۔۔ خود ابو جی کو مشورہ دے رہی ہیں آپ نے واپس نہیں آنا نیب والے بہت بے رحم ہیں۔۔ ان کے بھائی تو خیر تب نہیں آئے جب باپ جیل میں تھا۔۔ مسلم لیگ ن کے کئی سینئر رہنما مجبوراً خاندانی جماعت سمجھ کر خاموش ہیں ۔۔ ورنہ چوہدری نثار کی طرح وہ بھی نواز شریف اورشہباز شریف کے بعد قیادت ملنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔۔ ۔ چوہدری نثار علی خان نے تو تب کمال جرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مریم نواز صاحبہ کو بچی کہہ کر لیڈر ماننے سے انکار کردیا تھا جب ن لیگ کی حکومت تھی۔

اب آئیے پیپلز پارٹی کی طرف!
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کئی بار اعلانیہ پیپلز پارٹی کی پالیسی بتاتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ جمہوری حکومت کو غیر آئینی طریقہ سے ہٹانا نہیں چاہتے ۔۔ یعنی وہ صرف تحریک عدم اعتماد۔۔ یہ اعدادی برتری ثابت کرکے حکومت گرانے کے حامی ہیں۔۔ مگر مقام افسوس ہے کہ وہ جلسوں میں پیچھے اس امام کے چلتے ہیں۔۔جس کی بات الیکشن کے فوری بعد مسترد کردی تھی۔۔۔ مولانا فضل الرحمان تو تب بھی حلف نہ اٹھانے پر زور دیتے تھے ۔۔مگر شہبازشریف نے فیصلہ نہیں مانا۔۔ صوبے میں حکومت کی قربانی بھی پیپلز پارٹی نہیں دینا چاہتی لیکن پورے پی ڈی ایم کو یہ کہہ کرابہام میں ڈالا ہوا ہے کہ اپوزیشن متحدہے۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن بتا چکے ہیں کہ حکومت گرانے کیلئے 259استعفے درکار ہیں اور حکومتی ارکان کی تعداد84سے کم ہونی چایئے ۔۔ مگر ان کی منطقی دلیل پر غور کرنے کی بجائے۔۔۔ وہ فرماتے ہیں کونے والے کی سنو۔۔ وہ، حلوہ حلوہ ، پکار رہاہے۔۔قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور کے جلسہ سے قبل ایاز صادق کے گھر ہونے والی بیٹھک میں پیپلز پارٹی نے واضح کردیا تھاکہ وہ 31دسمبر کواستعفے جمع نہیں کرسکیں گے کیونکہ پارٹی کے اندر مخالفت ہے۔۔اس لیئے استعفے ساتھ اسلام آباد لے کر جانے کا اعلان کیا گیا ۔۔اجلاس کے بعد بداعتمادی کی پرچھائیاں قائدین کے چہروں سے عیاں تھیں۔

عوامی نیشنل پارٹی بھی اسی 11جماعتی اتحاد کاحصہ ہے جس میں اسفندیار ولی شریک نہیں ہوتے۔۔میاں افتخار حسین کی جمہوریت کیلئے قربانیاں اور مثبت سوچ سے انکار نہیں ہے لیکن اگر اپوزیشن کے سربراہی اجلاس ہوتے ہیں۔۔۔ بڑے بڑے جلسوں سے خطبات ہوتے ہیں تو کم سے کم اسفند یار ولی کا نکتہ نظر بھی سامنے آنا چائیے کہ وہ کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔۔ جلسوں میں شرکت تو کجا اس حوالے سے ان کے بیانات بھی مریم نواز کے ٹویٹر کی طرح خاموش ہیں۔۔کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب انھیں امید تھی بارگننگ کی ۔۔ جب ہر طرف سے لال جھنڈی دکھائی دی تو پھر 35سال خلائی مخلوق کے شراکت دار وں نے چھلانگ لگائی اور آئین کا علم سنبھال لیا۔

براہ راست اداروں پر حملے اور شخصیات کوہدف بنانے کی حکمت عملی بری ہے ۔۔پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت کی بالا دستی کے بیانیہ پر کسی زی شعور کو اختلاف نہیں ہے۔۔ اس سے اختلاف یا آمریت کی حمایت تو جنگل کے قانون پر بیعت کرنی ہے۔۔آپ کے ماضی کے کردار ، فیصلوں ، پنترے بدلنے کی عادات نے آپ کو عوام کی نظر میں ناقابل بھروسہ بنا دیاہے۔۔ایوین فیلڈ سے انکارپھر اعتراف۔ سعودی عرب کی ڈیل سے انکار پھراعتراف۔ قطری خط پر اصرار پھر مکرنا۔ ۔ جمہوریت کے مقدس ایوان میں کہنا یہ ہیں وہ ذرائع پھر عدالت میں کہنا وہ سیاسی بیان تھا۔۔العمروف لند ن تو کیا پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں والا جملہ۔

اختلاف رائے کا سب کو حق حاصل ہے۔۔ تصدیق کیلئے عرض ہے۔۔۔وکی لیکس میں نام آنے سے چند دن قبل اخبارات کی فائلز اٹھا کر شہ سرخیاں پڑھ لیں۔۔ میاں صاحب تقریباً ہر تقریر میں کہتے تھے ہم اورفوج سیم پیج پر ہیں۔۔اجلاسوں کی آرمی چیف کے ساتھ مشترکہ صدارت کرتے انھوں نے کبھی یہ نہیں جتایا کہ وہ چیف ایگزیکٹو ہیں۔۔شہباز شریف چوہدری نثار تو پکے رابطہ کار تھے۔۔ پھر جب وکی لیکس کا معاملا عدالتوں میں گیا تو ان کا لہجہ بدلا۔۔ عدالتی فیصلے آنے شروع ہوئے تو آئی جی آئی اتحادکے زریعے وزیراعظم بننے والے میاں صاحب نے یہ کہنا شروع کر دیا ووٹ کو عزت دو۔

کسی ادارے کے غیر آئینی اقدام کادفاع کرنا مقصود ہے نہ ہی کبھی حمایت کی ہے۔۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اب تک کی ناکامی ، مہنگائی کے طوفان ۔ معیشت کی تباہی ۔ بے روزگاری میں اضافے ۔۔ میڈیاکا گلہ گھونٹنے ۔ خود وزیراعظم عمران خان کے قول و فعل میں تضاد سے بھی انکار نہیں ہے۔۔ لیکن جب پھرسابقہ حکومتوں کے ادوار کے محاورے یاد آتے ہیں۔۔ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔۔۔ پیپلز پارٹی ادوار میں ملازمتوں کی بولیاں۔۔ تو پھر یقینالوگ سوچتے تو ہیں کہ جن لوگوں نے پہلے35سال ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا وہ پھر آگئے تو کیا انقلاب آجانا ہے۔۔سب جانتے ہیں میاں صاحب لندن بیٹھ کر سیاست کرنے نہیں بلکہ4ہفتے علاج کیلئے گئے تھے۔۔قوم کو بیانیہ نہ رٹاو۔۔ اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگو۔ ۔جھوٹ کااعتراف کرو تاکہ لوگ سچ میں آپ پر بھروسہ کریں۔

راحت اندوری کے یہ اشعار حسب حال ہیں

جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے، سچ بولو

سرکاری اعلان ہوا ہے، سچ بولو

گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے

دروازے پہ لکھا ہوا ہے، سچ بولو
گلدستے پر یک جہتی لکھ رکھا ہے

 گلدستے کے اندر کیا ہے، سچ بولو

گنگا مَیّا ڈوبنے والے اپنے تھے

ناؤ میں کس نے چھید کیا ہے، سچ بولو

Comments are closed.