امن معاہدہ کے بعد افغانوں کاامتحان


محبوب الرحمان تنولی

کل تک قیاس آرائیوں اور بد گمانیوں کا راج تھا، امریکہ اور افغان طالبان کے مابین معاہدے کیلئے بساط بچھائی جا چکی تھی لیکن غیر یقینی کی کیفیت برقرار تھی، اس کی ایک وجہ فریقین میں کئی بار مزاکرات کا تعطل اور معاہدے کے قریب پہنچ کر نئے مسائل پیدا ہونا تھا۔۔ اب کی بار ایسا نہیں ہوا، طالبان اس بات پر خوش تھے کہ وہ جو چاہتے تھے ہونے جارہا تھا جب کہ امریکہ اس بات پر مطمئن ہے کہ اسے واپسی کا راستہ مل رہا ہے اور ساتھ ساتھ فیس سیونگ بھی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخابی وعدہ تھا کہ وہ امریکہ کوافغان جنگ سے الگ کر دیں گے لیکن وہ ایسی دلدل میں پھنس گئے تھے جن سے نکلنا مشکل ہو گیا تھا۔۔سوائے ایٹم بم کے امریکہ نے ہر ہتھیار افغان طالبان کے خلاف آزما کر دیکھ لیا تھا۔۔امریکہ کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ جس نہتے جذباتی لشکر کووہ چند دنوں میں ختم کرنے کی سوچ کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے وہ بہت سخت جان مخلوق ہے۔

تقریباً پچاس ہزار سے زائد طالبانوں کی شہادت کے باوجودان کاجذبہ شہادت کم ہوا نہ ہی خوف ان کے قریب آیا، 2018کے آخر میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر ڈونلڈ ٹرمپ نے جذبات میں آکر طالبان سے مزاکرات ختم کئے لیکن ۔۔ بقو ل شاعر۔۔پھر اس کے بعد یہ سوچا کہ کیا کیا میں نے؟2001سے جاری اس جنگ میں امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے3500فوجی مارے گئے جن میں امریکیوں کی تعداد 2500کے لگ بھگ تھی۔

نائن الیون کا غصہ اتارنے کیلئے جو یلغار افغانستان میں کی گئی اس کا پہلا اور کلیدی ہدف القاعدہ کو قرار دیا گیا،القاعدہ کے تقریباً خاتمہ اور اسامہ بن لادن کی موت کے بعد بھی امریکی اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ شاید ان کا رعب و دبددبہ طالبان جنگجووں کو بھی خائف کر دے گا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی جوں جوں طالبان پر اور ان کے شبہ میں شہریوں آبادیوں پر بمباری کرتے رہے انھیں اسی شدت کاجواب ملتا رہا۔

کابل میں امریکہ نواز حکومت کے قیام اور افغانستان میں کہیں بھی ۔کسی بھی کارروائی کااختیار رکھنے کے باوجود حال یہ تھا کہ معاہدہ تک پہنچتے پہنچتے طالبان ملک کے60فیصد حصے پر کہیں اعلانیہ اور کہیں غیر اعلانیہ حکومت قائم کر چکے تھے۔۔امریکی صدر کی طرف سے مزاکراتی عمل توڑنے کے بعد دوبارہ جوڑنے تک امریکہ کی پاکستان کی خدمات مستعار لینا مجبوری بن گئی تھی اور پاکستان نے اپنے ، افغانستان اور خطے کے مفاد میں سہولت کارکا بھر پور کردار ادا کیا۔

29فروری کو جب دوحہ میں جنگ سے نکلنے کی بساط بچھی تھی اور معاہدہ پر فریقین نے دستخط کردیئے تھے تب بھی معاہدہ کے فریقین نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی ۔پاکستان سمیت ان تمام ممالک کا شکریہ بھی ادا کیا جن کی مدد سے امن عمل امن معاہدہ تک پہنچا ہے۔افغانستان سے 9ماہ میں غیر ملکیوں کے مکمل انخلا، فریقین کے قیدیوں کی رہائی،افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے سمیت کئی اہم نکات میں سے اہم نکتہ10مارچ کو شروع ہونے والے افغانوں کے اپنے مزاکرات ہیں۔

امریکہ کی مدد سے اقتدار میں بیٹھے اشرف غنی ، عبداللہ عبدللہ ان کے حامیوں، دیگر اہم سٹیک ہولڈرز حکمت یار، رشید دوستم ، طالبان کی قیادت اور مزاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنے والے افغانستان کے ہر دھڑے کا امتحان شروع ہونے جارہاہے،طویل جنگ اور خانہ جنگی کے بعد ایک بار پھرقدرت نے امن کی کنجی خود افغانوں کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔۔ اب ان کاامتحان ہے کہ انا پرستی ،سیاسی مفادیا ماضی کی بد گمانیوں میں الجھے رہتے ہیں با ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے متفقہ حل تلاش کرتے ہیں۔

افغان سرزمین کی تاریخ آپس کی چپقلش ، لڑائیوں، برتری کے احساس کوزندہ رکھنے کیلئے باہمی جھگڑوں کی لمبی داستان ہے مگر اب دنیا ان سے کچھ نیا کرنے کی امید لگائے بیٹھی ہے،انھیں مزاکرات کی میز پر آپس کی شرائط پر ڈٹ جانے کی بجائے لچک دار رویوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔صرف امریکہ اور غیر ملکی افواج ان کا مسلہ نہیں ہے۔ افغانستان کو بے شمار مسائل نے جکڑرکھاہے۔۔

افغانستان کے لاکھوں مہاجرین پاکستان ، ایران اور دیگرممالک میں دو ، تین دہائیوں سے پناہ لئے ہوئے ہیں جوواپسی کیلئے امن کے متلاشی ہیں۔معیشت کو امریکی مالی امدادکے بغیر چلانے کی پیش بند ی کرنی ہے۔پڑوسی ممالک کے ناجائزاثرو رسوخ سے نکل کر باہمی احترام اور مفادکے رشتے قائم کرنے ہیں۔تباہ حال انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کرنی ہے۔۔ سب سے بڑھ کر ایک ایسے معاہدہ تک پہنچنا ہے جس کے تحت آئندہ پندرہ ، بیس سال تک باہمی چپقلش سے بچا جاسکے۔

پاکستان کیلئے سب سے خوش آئندہ بات یہ ہے کہ بھارت کا افغانستان میں تخریب کارارانہ ذہن پر مبنی اثرو رسوخ کم ہو گا۔پاکستان پڑوسی بردار ملک کے ساتھ اعتماد کی فضا بحال کرکے افغان مہاجرین کی واپسی کی راہ ہموار کرسکے گا۔۔ خطے میں طاقت آزمائی کے غیر قانونی جواز ختم ہوں گے۔۔اگرچہ پاکستان کی اپنی معیشت بھی اچھی نہیں ہے لیکن اعتمادبحالی کیلئے پاکستان کو افغانستان کو اپنے پاوں پر کھڑاکرنے کیلئے کئی شعبوں میں مدد کرنا ہوگی۔کیونکہ اس سے قبل انڈیا نے مدد کے نام پر افغان سرزمین کا غلط استعمال کیاہے۔

تعصب کی سوچ سے بالا تر ہو کر سوچا جائے تو عملاً طالبان نے امریکہ کو شکست دے دی ہے اور امریکی جان چھڑانے کیلئے معاہدہ پر آمادہ ہوئے ہیں۔طالبان نے دنیا پر یہ بات ثابت کردی ہے کہ بحثیت قوم اپنے جذبوں کو زندہ رکھ کر جدو جہد جاری رکھی جائے تو بے سرو سامانی سے بھی دنیا کی سپرپاور کو شکست دی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے افغان قوم اپنی سرزمین پر حملہ آور ہونے والے روس کو بھی پسپا کر چکی ہے،انھیں تب بھی پاکستان کا ساتھ حاصل تھا اور آج امریکہ کو نکالنے میں بھی پاکستان کاکردار شامل ہے۔

طالبان کی سیاسی قیادت کو ان اغلاط سے بچنا ہوگا جو وہ ماضی میں کرچکے ہیں اور دنیا میں ان کے اقدامات کا منفی پیغام گیا تھا۔میڈ یااور تعلیم کو کنٹرول کرنا،غیر ضروری پابندیاں عائد کردینا اور مروجہ عالمی قوانین کے برعکس اقدامات سے اجتناب برتنا ہوگا۔۔ طالبان کی اسلامی حکومت نے شریعت کے نفاذ میں کئی مثالی اقدامات بھی کئے تھے جنھیں دیر تک یاد رکھا گیا ہے ۔۔ خاص کر ان کے اخلاق اور کردار سے متاثر ہوکرافغانستان میں آنے والے کئی شعبوں سے وابستہ غیر ملکیوں نے اسلام قبول کیا۔

اب جب افغانوں نے بات چیت کیلئے میز پر بیٹھنا ہے تو حکومت کو اپنے حکومتی اثر اور طالبان کو امریکہ کو انخلاء پر مجبو ر کرنے کے زعم سے آزاد ہو کر افغانستان کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنا ہوں گے، کئی دہائیوں سے جنگوں میں الجھی افغان قوم کو دیر پا امن کا تحفہ دینا ہے ۔ افغانستان کو دنیامیں باعذت مقام دلانا ہے ۔امن کے راستے تلاش کرنے ہیں۔۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب ماضی کی طرح باہمی چپقلش میں پڑنے کی تاریخ دہرانے کی بجائے اس بات کااحترام کیا جائے کہ افغان سرزمین تمام مذاہب ، مسالک اور اقوام کی مشترکہ ہے اور اس پر سب کاحق ہے۔

Comments are closed.