اس طرح ہنسا نہ کرو


شہریارخان

وہ میرے کمرے میں داخل ہوا تو اسے دیکھتے ہی باقاعدہ ہنسی آ گئی، اجڑے ہوئے بال، قمیض کے بٹن کھلے ہوئے، شیو بڑھی ہوئی۔۔ مجھے ہنستا دیکھ کر اس کا چہرہ مزید اجڑ گیا۔۔ اب کچھ بولنا نہیں، حکم بھی صادر کر دیا۔

میں چپ ہو کر لیپ ٹاپ میں کھو گیا۔۔ اب ایسے ہی خاموش بیٹھے رہو گے؟۔۔ کچھ منگاﺅ میرے کھانے پینے کے لیے۔۔ ایک نیا حکم۔۔ بھائی صاحب آپ نے ابھی خود کہا تھا کچھ بولنا نہیں تو کیسے بول سکتا تھا، آخر آپ کی حکومت ہے ہماری کیا مجال حکم عدولی کی؟۔

میں بولا بس ۔ یہی تمہاری بات ہے، فوراً تمہاری حکومت کا طعنہ دے دیا۔۔ یعنی اب میری ذاتی حیثیت کوئی نہیں، میں بس پی ٹی آئی کا کارکن ہوں اور کچھ نہیں؟۔۔ جسے دیکھو بس میری بے عزتی کو فرض اولین سمجھ لیا ہے۔ جہاں سے گزروں ہر شخص مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے۔

ریڑھی سے پھل خریدتا بابا رشید، موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلواتا افضل، دودھ میں پانی ملاتا شفیق، جہانگیر ترین کو کابینہ اجلاس میں بیٹھا دیکھ کر قہقہے مارنے والا اسحاق۔۔ جسے دیکھو میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ کرنسی ایکسچینج کی دکان کے سامنے سے نہیں گزر سکتا، اس کا گارڈ بھی ہنستا ہے مجھے دیکھ کر۔۔وہ تقریباً رو دیا۔

کیوں؟۔ وہ گارڈ کیوں ہنستا ہے کم بخت؟۔۔ میں نے ہنسی روکتے ہوئے پوچھا تو وہ پھٹ پڑا۔۔ جس طرح تم کم بخت دل میں ہنس رہے ہو، وہ بھی ایسے ہی ہنستا ہے۔۔ جانتے ہو کیوں؟۔

میں نے اسے کہا تھا جب بھی میرا کپتان آئے گا ڈالر ٹکے ٹوکری ہو جائے گا، پٹرول سڑکوں پر بہتا ہو گا۔پھل، سبزی تک سب غریبوں کی رسائی ہو گی۔۔ لیکن کچھ وقت درکار ہو گا، ہمارے اندازے غلط ہو گئے۔ اسد عمر کوئی تمہارے اسحاق ڈار کی طرح منی لانڈرر نہیں ہے۔

اسے نہیں پتا چلا کہ اس اقتصادی ترقی کے پیچھے کس طرح کے فراڈ ہوتے ہیں، کچھ وقت دو اسے بھی ، کپتان کو بھی اور مجھے بھی۔۔۔ وہ ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔۔میں نے اس کے آگے چائے کا کپ اور بسکٹ کی پلیٹ رکھی ۔

اب ہمارے ساتھ ہمارے والا فارمولہ ہی؟۔۔ مجھے گھورتے ہوئے وہ دھاڑا۔۔۔ کیا ہو گیا؟۔ میں نے کیا کیا ہے؟۔ میں نے پوچھا۔۔ یہ ایک کپ چائے اور بسکٹ تو ہماری پی ٹی آئی کی پہچان ہے، تم لفافہ صحافی ہو، کچھ تو شرم کرو۔۔ کچھ سموسے پکوڑے منگواﺅ۔۔

اچھا چلو، منگواتا ہوں، آفس بوائے کو دور جانا پڑے گا۔۔ تمہیں دیر ہو جائے گی۔۔ میں بولا ۔۔ تو کہنے لگا میں نے کون سا ملک اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے؟۔ تھوڑی نہیں زیادہ دیر بھی ہو جائے آج تو سموسے کھا کر ہی جاﺅں گا، تمہاری زرد صحافت کی کمائی سے۔

میں نے آفس بوائے کو پیسے دے کر رخصت کیا تو کہنے لگا، کیا زمانہ آ گیا ہے، اب تو مراد سعید کے بولے ڈائیلاگ کا حساب بھی محلہ والے، دوست یار، آفس والے سب مجھ سے مانگ رہے ہیں۔ اپنے بجلی اور گیس کے بل مجھے ایسے دکھاتے ہیں جیسے میں نے بھیجے ہوں۔

دیکھو یار، سیاست پر مجھ سے بات نہ کرو۔۔ پھر تم ناراض ہو جاتے ہو۔۔ ورنہ مراد سعید اور اسد عمر تمہارے ہیرو تھے۔۔ تم ہی کہتے تھے ایسے ایماندار لوگ جب حکومت میں ہوں گے تو خود بخود تمام کرپشن ختم ہو جائے گی اور ملک خوشحال ہو جائے گا۔

میں بولا ۔ہاں ایسا ہو بھی سکتا تھا اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا نہ کیا ہوتا۔۔ اسد عمر بے چارہ ستر سال کا گند سات ماہ میں تو صاف نہیں کر سکتا؟۔۔مراد سعید نے جذبات میں آ کر کہہ دیا تھا دوسرے دن بیرون ملک رکھے ہمارے دو سو ارب ڈالر واپس ملک میں عمران لائے گا اور ان میں سے ایک سو ارب ڈالر سے وہ قرضہ اتارے گا باقی ملک پر لگائے گا۔

اب حکومت میں آئے ہیں تو پتا چلا ہے یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔کچھ وقت دے دو، صبر کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ بولا۔
دیکھو بھائی، ہم نے عمران کو نہیں کہا تھا وہ وزیر اعظم ہاﺅس میں نہ رہے، پہلے اعلان کر دیا مگر اب بھی وہیں رہتا ہے۔

ساری دنیا کو غلط بتایا گیاکہ گیارہ سو کنال پر بنے وزیر اعظم ہاﺅس میں رہتے تھے سابق وزرائے اعظم، وزیر اعظم کی رہائشی انیکسی اتنی بڑی نہیں۔ پی ایم ہاﺅس کے ملازم نکالے نہیں گئے ا ن کو تنخواہ اب بھی ملے گی، بچت کیسی؟۔ سعودی اور ملائشین مہمانوں کو ٹھہرا کر اس وزیر اعظم ہاﺅس کی افادیت کا اندازہ بھی ہوا یا نہیں ہوا؟۔۔۔

ہم نے کہا تھا وزیر اعظم قوم سے کہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو تو جان لو وزیر اعظم چور ہے؟۔ ہم نے کہا تھا کہ تقریر کرے کہ کسی سے پیسے مانگنے سے پہلے میں خود کشی کر لوں گا؟۔ ہم نے کہا تھا کنٹینر پر کھڑے ہو کر بجلی اور گیس کے بل جلائے؟۔ ان میں سے ہم نے کچھ نہیں کہا تھا تمہارا کپتان یہی کھوکھلے نعرے لے کر آیا تھا۔

کوئی پالیسی تھی نہ ہی کوئی ویژن تھا۔۔ بھائی صاحب، یہ جب کہتے ہو ناں کہ وقت دو، ہم سیکھ رہے ہیں تو لوگ تجربہ کے بغیر ڈرائیور نہیں رکھتے، بال بھی کٹوانے ہوں توتجربہ کار نائی ڈھونڈتے ہیں کہ کہیں کان ہی نہ کتر ڈالے کوئی اناڑی۔۔ لیکن یہاں ملک دیا گیا ہے ایسے لوگوں کو جو پارسائی کے دعوے دار تھے۔

خود سلائی مشین کے طعنے سے شرمندہ ہوتے نہ جہانگیر ترین کو کابینہ اجلاس میں بٹھا کر۔۔ ایسے لوگوں سے کیا بحث کروں۔۔ میرے جملہ مکمل کرنے سے پہلے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔۔ میرا پیٹ بسکٹ سے ہی بھر گیا ہے، سموسے میری طرف سے تم کھا لینا۔۔ لیکن یار پلیز مجھے دیکھ کر اس طرح ہنسا نہ کرو۔ اللہ حافظ۔

وہ تقریباً بھاگتا ہوا نکل گیا کہ کہیں میرا اگلا جملہ نہ سننا پڑ جائے۔

Comments are closed.