استثنیٰ میں کیا حرج ؟

شمشاد مانگٹ

ایک طرف احتساب عدالت تیزی سے میاں نوازشریف اور انکے خاندان کیخلاف مقدمات کی سماعت کو مکمل کرتی ہوئی نظر آرہی ہے اور ساتھ ہی دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کی حکومت اپنی5سالہ مدت اقتدار کی تکمیل کرتی دکھائی دیتی ہے۔جو احتساب عدالت میں ہورہا ہے وہ بھی حکومتوں اور حکمرانوں کے ساتھ اکثر ہوتا رہتا ہے اور مدت اقتدار کا مکمل ہونا بھی اب نئی بات نہیں رہی۔لیکن ان دو چیزوں کے ساتھ ساتھ تیسری بات بھی بہت اہم ہے اور وہ محترمہ کلثوم نواز کی بیماری ہے۔

ایسے محسوس ہوتا ہے کہ محترمہ کلثوم نواز کا وجود شریف فیملی کیلئے بہت ہی فیوض وبرکات کا حامل ہے۔
جیسے جیسے محترمہ کلثوم نواز کی صحت کمزور ہوتی جارہی ہے بالکل اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے اقتدار کی رسیاں کمزور ہوتی نظر آرہی ہیں۔محترمہ کلثوم نواز مشرقی روایات کی بھرپور عکاسی کرنیوالی خاتون ہیں۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سب سے زیادہ جرأت اوربہادری کے ساتھ مسلم لیگ(ن)کی طرف سے محترمہ کلثوم نواز نے ہی مقابلہ کیا تھا

آمریت کے دور میں بھی محترمہ کلثوم نواز اپنی مشرقی شخصیت کے ساتھ کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ اور کبھی نوابزادہ نصر اللہ کے ساتھ مشکل وقت کو آسان کرنے کے جتن کرتی رہتی تھیں۔میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف جب جیل میں تھے تو محترمہ کلثوم نواز تن تنہا اپنے پارٹی ورکروں کا حوصلہ بلند کرتی ہوئی نظر آتی تھیں۔آمریت کے جبر کے سامنے ڈٹے رہنے والی خاتون گزشتہ ایک سال سے کینسر جیسے موذی مرض کے باعث نڈھال ہوچکی ہے۔

میاں نوازشریف وقفے وقفے سے خود لندن جاکر اپنی اہلیہ کی تیمارداری کررہے ہیں اور لندن سے جاری ہونیوالی تصاویر سے دکھائی دیتا ہے کہ شیشے کے اُس پارمحترمہ کلثوم نواز شریف کینسر کے شکنجے میں بے بس ہیں اور شیشے کے اِس طرف میاں نوازشریف بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کے باوجود بے بس ہیں۔

میاں نوازشریف سے ہر طرح کا سیاسی اور جمہوری احتلاف تو ہوسکتا ہے لیکن اس بات سے کسی سخت دل کو بھی انکار نہیں ہے کہ اس مشکل گھڑی میں میاں نوازشریف اور محترمہ مریم نواز کو محترمہ کلثوم نواز کے پاس موجود ہونا چاہئے تھا۔میاں نوازرشریف کے سیاسی کیریئر پر جس طرح پانامہ لیکس نے جگہ جگہ گلٹیاں پیدا کردی ہیں بالکل اسی طرح محترمہ کلثوم نواز کے جسم میں کینسر نے اپنی جڑیں پھیلا دی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اقتدار اور شریک حیات رفتہ رفتہ میاں نوازشریف سے ناراض ہوتے جارہے ہیں۔

میاں نوازشریف اور محترمہ مریم نواز شریف نے بیماری کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہی عدالت سے استثنیٰ کی درخواست کی تھی جسے رد کردیاگیا۔

منظور کرنا یا رد کرنا عدالتوں کا صوابدیدی اختیار ہے لیکن ایسے ہی معاملات میں جب ہمارا قانون اور انصاف کی فراہمی کا نظام جان بوجھ کر”دودولحاف“ اوڑھ کرسو جاتا ہے تو عام آدمی کے اندر مایوسی پیدا ہونا یقینی بات ہے۔سابق صدر جنرل پرویز نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او پر دستخط کئے تو ایک دم 8000 سے زائد سنگین نوعیت کے مقدمات ابدی نیند سلا دئیے گئے۔یہ معاہدہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کی بقاء کیلئے ضروری تھا اس لئے اس بات کو نظر انداز کردیاگیاکہ اس معاہدے سے کئی سنگین جرائم پیشہ لوگ بھی فائدہ اٹھا جائیں گے۔

اس تناظر میں اگر میاں نوازشریف اور محترمہ مریم نواز کے استثنیٰ کو دیکھا جائے تو یہ کوئی بڑی درخواست نہیں تھی اورانسانی ہمدردی کے نام پر عدالتیں”رحم“ کرسکتی تھیں۔

این آر او سے پہلے اسی جنرل پرویز مشرف نے اسی میاں نوازشریف کو انسانی ہمدردی کے نام پر کال کوٹھڑی سے نکال کر10سال تک سیاست نہ کرنے کا معاہدہ کروا کر جدہ روانہ کردیاتھا۔اس قانون شکنی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اپنی بیمار اہلیہ کیلئے میاں نوازشریف کی درخواست آئینی بھی ہے اور اصولی بھی ہے۔یہی نہیں حکومت پاکستان نے سینکڑوں بے گناہوں کو دہشتگردی کی بھینٹ چڑھا دینے والے کلبھوشن یادیو کی ملاقات اسکی اہلیہ اور ماں سے کروائی اور اسے انسانی ہمدردی کا نام دیا گیا۔

میاں نوازشریف کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے انکے مخالفین اسے انکی”بداعمالیوں“ کی بڑی وجہ بھی قرار دیتے ہیں اور اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف جب بھی اقتدار کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہوئے تو انہوں نے اس گھوڑے کو ہمیشہ سیاسی مخالفین کی صفوں پر چڑھ دوڑنے کیلئے ایڑھی ماری۔
میاں نوازشریف نے لندن کے قیمتی فلیٹس90کی دہائی میں خریدے تھے اور یہ ان دنوں کی واردات ہے جب وہ سرے محل فروخت کرکے پیسہ واپس لاسکے اور نہ ہی خود کو لندن کی قیمتی جائیدادوں کے سحر سے جدا کرسکے۔سرے محل کو فروخت کرنے کا نعرہ لگانا میاں نوازشریف کی محض ایک سیاسی ”چترائی“ تھی اور عوام کو بے نظیر بھٹو شہید کیخلاف ”اکساوا“دینے کیلئے وہ اس نعرے کو استعمال کرتے تھے۔

میاں نوازشریف کی اس کرپشن کی داستانیں 1997ء سے اخبارات کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں اگر ہمارا قانون اور عدالتیں گزشتہ25سال سے خاموش تھیں تو پھر اب چند دن کا استثنیٰ دینے میں حرج ہی کیا ہے؟ اقتدار تو ہو سکتا ہے کہ میاں نوازشریف کو چوتھی بار بھی مل جائے لیکن محترمہ کلثوم نواز اس حالت میں اگر خدانخواستہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئیں تو پھر پچھتاوا ہی رہ جائے گا اور یہ پچھتاوا رحم کی اپیل کرنے والوں کیلئے بھی ہوگا اور رحم نہ کرنے والوں کیلئے بھی ہوگا۔

ویسے بھی رحم کے اصل حقدار بے رحم لوگ ہی ہوتے ہیں۔میاں نوازشریف کے موجودہ حالات کے بارے میں احمد فراز کے چند اشعار۔

”بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص
تو نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص
ہم تو مقتل میں بھی آتے ہیں بصد شوق ونیاز
جیسے آتا ہے محبت سے پکارا ہوا شخص
موت کے جبر میں ڈھونڈی ہیں پناہیں اس نے
زندگی یہ ہے تیرے لطف کا مارا ہوا شخص“

Comments are closed.