اب نہیں بات کوئی خطرے کی

شمشاد مانگٹ

پاکستان میں پہلے نامعلوم افراد زیادہ خطرناک سمجھے جاتے تھے لیکن اب مشتبہ افراد نے پوری قوم کو ہی ڈرا دیا ہے ، نامعلوم اور مشتبہ افراد میں اب فرق یہ پیدا ہو گیا ہے کہ نامعلوم افراد پوری طاقت سے کسی کی دھلائی کرکے غائب ہو جایا کرتے تھے لیکن اب مشتبہ افراد سے حکومتیں اور عوام اس لئے خوف زدہ ہیں کہ وہ پورا محلہ ، گاﺅں اور شہر برباد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، پاکستان کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کی تعداد12ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

پاکستان کے تمام تھانوں میں مشتبہ افراد کا الگ سے خانہ ہوتا ہے اور علاقے میں ہونیوالی کسی بھی بڑی واردات کا کھوج لگانے کے لئے مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا جاتا ہے اور اصل ملزم ملنے تک مشتبہ افراد کو پچھلے جرائم کی از سر نو سزا بھگتنی پڑتی ہے، ہمارے ہاں چونکہ پولیس اس وقت دہری ڈیوٹی دے رہی ہے انہیں جرم کو روکنے کے لئے مشتبہ افراد پر بھی نظر رکھنا ہے اور مشتبہ مریضوں کا بھی کھوج لگانا ہے ، تھانوں کے ریکارڈ میں اب ایک اور فہرست کا اضافہ کرنا بہت ضروری ہے اور اس فہرست میں ہر تھانے کی حدود میں مشتبہ مریضوں کی تعداد بھی لکھ دی جائے تاکہ کورونا کا علاج بذریعہ پولیس کرنے میں آسانی رہے۔

کورونا کی وباءآنے سے پہلے ہر محلے یا گاﺅں یا پھر تھانے کی حدود میں مشتبہ افراد کی تعداد ایک درجن کے قریب ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ تعداد سینکڑوں میں ہوگئی، کیونکہ ہر کھانستا ہوا شخص مشتبہ ہو چکاہے اور ہر وہ شہری جس کی آنکھوں سے الرجی کی شدت کے باعث پانی بہہ رہا ہو اور اس کے ہاتھ میں ٹشو پیپر یا ریشمی رومال ہو سمجھو وہ مشتبہ ہے ۔تیس چالیس سال پہلے ہر محبوب اپنے عاشق کو ریشمی رومال کا تحفہ دے کر اپنی محبت کا اظہار کیا کرتا تھا مگر دور جدید میں اگر کوئی ایسی جرات کرے گا تو یقیناً عاشق اپنے محبوب کو مشکوک نظروں سے دیکھے گا کہ شاید اس نے مجھے کورونا زدہ سمجھ کر ناک پر رکھنے کے لئے رومال گفٹ کیا ہے۔

بہرحال کورونا کے پھیلاﺅ سے پہلے گلی اور محلے سے دو چار بزرگوں کی کھانسنے کی آ واز آجایا کرتی تھی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اہل محلہ نے بزرگوں کو مشتبہ فہرست سے بچانے کےلئے کھانسی کا کوئی سلنسر لگوا دیا ہے تاکہ آواز باہر نہ جائے کیونکہ خدانخواستہ اگر کسی میں کورونا وائرس ہوا بھی تو اس کا گھر پر دیسی ٹوٹکوں سے علاج زیادہ بہتر ہو سکتا ہے بزرگوں کے تو اب کھنگھورے بھی سنائی نہیں دیتے۔

چونکہ پنجاب حکومت نے اعلان کردیا ہے کہ کورونا سے جس مریض کی موت واقع ہو گی اس کی میت کا کیا کرنا ہے ؟ اس کا فیصلہ پنجاب حکومت خود کرے گی۔حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس وقت دنیا بھر میں مشتبہ افراد کی زیادہ تعدادضعیف اور عمررسیدہ ہے جن بزرگوں کو ہم اپنے لئے اب بھی رحمت اور باعث برکت سمجھتے ہیں وہ یا توکورونا کی زد میں آرہے ہیں یا پھر انہیں مشتبہ سمجھا جارہا ہے ۔شاید اللہ تعالیٰ ظالموں پر آخری چوٹ لگانے سے پہلے دعاﺅں کے یہ پرانے مشکیزے ہم سے چھیننا چاہ رہا ہے۔

برصغیر میں جب طاعون پھیلا تو سکھ سرداروں سے منسوب ایک واقعہ ہے کہ گورے اہلکاروں نے سکھ سرداروں کے ایک بزرگ کو مشتبہ سمجھ کر حراست میں لینے کی کوشش کی تو سرداروں نے ان گورے اہلکاروں کی نہ صرف ٹھکائی کی بلکہ انہیں بتایا کہ ہمارے بابا جی تو پچھلے مہینے پنجہ صاحب اور کرتارپورہ متھا ٹیک کر آئے ہیں انہیں مشتبہ قرار دینے کی تمہاری جرات کیسے ہوئی؟ سکھ سرداروں کو جب تک اصل بات کی سمجھ آئی اس وقت تک پورے گاﺅں پر گول پرچہ ہو چکا تھا۔

کورونا سے لڑنا اس وقت مسئلہ نہیں ہے بلکہ کورونا سے مرنا اصل مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ عوام کے اندر یہ خوف زیادہ ہے کہ اگر گھر کے کسی ایک فرد کو کورونا زدہ قرار دیدیا گیا تو پھر پورے خاندان اور دوستوں سمیت رشتہ داروں کو قرنطینہ کے عذاب دہ عمل سے گزرنا پڑے گا ، ہمارے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں اور قرنطینہ میں رکھے گئے لوگوں کو اڈیالہ جیل سے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا ہے اور لوگوں کو اس خوف نے گھیر رکھا ہے کہ اگر ہم حکومت کی نگرانی میں کورونا کی بھینٹ چڑھ گئے تو نہ ہماری نماز جنازہ ہو گی اور نہ ہی کسی عزیز کو منہ دیکھنے کی اجازت ملے گی اور رسم قل اور رسم چہلم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

حکومت کو یہ بھی علم ہے کہ لوگوں کو گھر گھر راشن نہیں دیا جاسکتا اور یہ بھی جانتی ہے کہ لوگ اگر کورونا ٹیسٹ کے لئے خود ہسپتال آگئے تو ہم ٹیسٹ ہی نہیں کرپائیں گے تو پھر لوگوں کو کم ازکم اپنے عزیزو اقارب کے پاس تو رہنے دیا جائے ، حکومت کا نعرہ ہے کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے اور لڑنا کیسے ہے کہ گھروں میں رہ کر ۔اگر حکومت چاہتی ہے کہ عوام واقعی کورونا کیخلاف لڑے تو پہلے انہیں ”باعزت“مرنے کی یقین دہانی تو کروا دی جائے ۔مشکل یہ آن پڑی ہے کہ عوام زندگی سے بھی خوف زدہ ہیں اور مرنے سے اور بھی زیادہ خوف زدہ ہیں ویسے تودیگر امراض سے مرنے والوں کے جنازے بھی اب مختصر ہو رہے ہیں اور ان کی دعائے مغفرت میں شریک ہونیوالوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔

ہمارا ایمان ہے کہ جس میت کے جنازے میں چالیس افراد شریک ہوں اور وہ اس کی مغفرت کی دعا کریں تو اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمادیتا ہے، حکومت نے عوام کو اتنا خوف زدہ کردیا ہے کہ اب جنازے میں چالیس افراد کا پورا ہونا ہی بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے لہذا حکومت مرنے والوں کےلئے چالیس سرکاری اہلکاروں کا ہر صورت بندوبست کرے تاکہ دنیا میں دکھ اٹھا کر جانیوالوں کی آ خرت تو آسان ہو جائے ، ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کورونا سے مرنیوالوں کے ساتھ اسامہ بن لادن جیسا سلوک کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔مرنے سے پہلے وہ مشتبہ افراد میں ہوں گے اور مرنے کے بعد ان کی قبر نامعلوم ہوگی۔بقول جون ایلیا
”عیش امید ہی سے خطرہ ہے
دل کو اب دل سے ہی خطرہ ہے
جس کے آغوش سے ہوں دیوانہ
اس کے آغوش ہی سے خطر ہ ہے
اب نہیں بات کوئی خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے“

Comments are closed.