سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد کردی

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد کردی ،ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین سے متصادم قرار ،اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی مسترد کردیاگیا ، عدالت نے تحریک عدم اعتماد بحال برقرار رکھی ہے اور حکومتی اقدامات کو ختم کردیاگیا ہے۔

سپریم کورٹ نے محفوظ کیاگیا فیصلہ سنا دیاہے اس سے قبل سپریم کورٹ میں تحریکِ عدم اعتماد مسترد ہونے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ شام ساڑھے سات بجے تک ملتوی کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے وفاقی کابینہ کو بھی بحال کرتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کو جلد از جلد نمٹایا جائے ، نگران حکومت کیلئے اسپیکر اور صدر مملکت کے اقدامات کو بھی کالعدم قرار دے دیاگیا۔

عدالت نے وزیراعظم عمران خان کو بھی بحال کیا ہے اور عدالتی فیصلے میں کہا گیاہے کہ جب تک تحریک عدم اعتماد مکمل نہیں ہوتی قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی نہ کی جائے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے متفقہ فیصلہ سنایاہے ، حکم دیا گیا کہ ہفتہ کے روز اسمبلی کااجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی مکمل کی جائے ،قرار دیاگیا کہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی کوئی آئینی حثیت نہیں ہے۔

 تحریک عدم اعتماد پر 9 اپریل ہفتے کی صبح بجے 10 بجے ووٹنگ کرانے کا حکم 

سپریم کورٹ نے جلدازجلد تحریک عدم اعتماد کو نمٹانیکا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اسمبلی اجلاس کوغیرمعینہ مدت تک ملتوی نہ کیا جائے اسپیکرعدم اعتمادتحریک نمٹانے تک اجلاس ملتوی نہیں کرسکیں گے۔

عدالت نے تحریک عدم اعتماد پر 9 اپریل ہفتے کی صبح بجے 10 بجے ووٹنگ کرانے کا حکم دے دیا،عدالت نے فیصلے میں کہا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونیکی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے ۔

عدالتی فیصلہ کے وقت پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔ سپریم کورٹ میں سیکیورٹی سخت کی گئی اور غیرمتعلقہ افراد کا داخلہ بند کیا گیا تھا۔ پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری سپریم کورٹ کے احاطے میں تعینات کی گئی۔

جاری ہے

اس سے قبل فیصلہ محفوظ کرنے سے پہلے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی طرف سے رولنگ کا دفاع نہ کرنے الیکشن پر زور کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی بحال ہوگی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا، چیف جسٹس نے کہا ملک کو استحکام کی ضرورت ہے جبکہ اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا، میرا مدعا نئے انتخابات کا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا ہے، عدالت نے آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے.

جسٹس جمال مندوخیل کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں اور ہم نتائج پر نہیں جائیں گے،سماعت تقریباً مکمل ہے، ڈپٹی اسپیکر رولنگ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آج 7 بجے سنایا جائے گا .

سپریم کورٹ میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر از خود نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے، قاسم سوری کے وکیل نے کہا پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، نعیم بخاری نے کہا سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے.

سپریم کورٹ میں جمعرات کوچیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کیس کی سماعت جاری رکھی، پنجاب کے ذکر پر عدالت نے کہا ہم رولنگ پر فوکس ہیں پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ لے کر جائیں.

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام ایم پی ایز نے حمزہ شہباز کو وزیراعلٰی بنا دیا، سابق گورنر آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ میں لے کر جائیں۔ قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔

صدر مملکت عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔‘
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ’آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟

جیسے پارلیمنٹ عدلیہ میں اور عدلیہ پارلیمنٹ میں مداخلت نہیں کرسکتی، بیرسٹر علی ظفر۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے۔ کہیں تو لکیر کھینچنا پڑے گی۔

صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ، آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔

عدالت نے پوچھا کہ کیا منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریتی جماعت ہے۔ اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آؤٹ ہو جائے تو کیا ہوگا؟بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ سیاسی معاملے کا جواب صدر کے وکیل کے طوپر پر نہیں دے سکتا۔

بیرسٹر علی ظفر کے دلائل ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امیتیاز صدیقی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کا اعلان کر دے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔

عدالت نے وزیراعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ، درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟

وزیراعظم کے وکیل نے بتایا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی سپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں، وکیل وزیر اعظم،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے باور کرایا کہ ’قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے پاس کوئی مواد دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟
عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ ڈپٹی سپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟

ان سوالوں کے جواب میں وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کے معاملے کے حوالے سے انہیں کچھ معلوم نہیں۔
چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نہ کریں۔

عدالت نے کہا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی سپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟

وزیراعظم کے وکیل نے بتایا کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔

قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا زیرالتواء تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟

جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن سپیکر کا اختیار ضرور ہے۔
ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا،اب معاملہ عوام کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے، یہ عدالتی اختیار نہیں ہے.

Comments are closed.