سیگرٹ کے بعد ای سیگرٹ،حکومت کے لیے بڑا چیلنج
ارسلان سدوزئی
لڑکپن میں شوق شوق میں ایک چھوٹی سی عادت زندگی کی بڑی غلطی ثابت ہوتی ہے۔ بات ہورہی سگریٹ نوشی کی جو لڑکپن یا جوانی میں شروع ہوتی ہے ۔ بظاہر زندگی کے ان دونوں ادوار میں سگریٹ نوشی کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی ہے۔ لیکن دوستی یاری کی محفلوں میں یہ بری عادت بظاہر شوق شوق میں لگ جاتی ہے ۔ ایک بار ایک سوٹا لگایا ، پھر کبھی خوشی یا غمی میں پورا سگریٹ سلگایا اور پھر کبھی ڈبی ہی خرید لی ۔۔ یوں یہ عادت آگے چل کر نشہ یا لت بھی بن جاتی ہے ۔۔ اگر چہ اب سگریٹ نوشی میں کچھ کمی آئی ہے لیکن ای سگریٹ کا رجحان اب دنیا کیلئے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
سگریٹ نوشی کے اثرات نہ صرف فرد کی صحت پر بلکہ پورے معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اگرچہ سگریٹ نوشی کا رجحان وقت کے ساتھ کم ہوا تھا، مگر حالیہ برسوں میں اس میں ایک نیا اضافہ دیکھا گیا ہے، جو خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس مضمون میں سگریٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی۔
پاکستان میں تمباکو نوشی کا بڑھتا رحجان
تھنک ٹینک کیپٹل کالنگ جو ہر سال سیگرٹ پینے والوں کی تعداد کے حوالے سے ایک سروے کرتا ہے ،سال دو ہزار 24میں جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان ملٹی نیشنل سگریٹ کمپنیوں کی افزائش گاہ بن چکا ہے۔ تمباکو پر زیادہ ٹیکس تمباکو کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرتا ہے تاہم دوسری جانب اسمگل ہونے والے سیگرٹ جو ملکی برینڈز کے مقابلے میں کم قیمت ہیں ۔اور لوگ اسے آسانی سے خرید بھی سکتےہیں ،جس کے باعث یومیہ اموات کی تعداد 274 سے بڑھ کر چار سو 60 تک جا پہنچی ہے ۔جب کہ نوعمر بچوں میں بھی تمباکو نوشی کا رحجان بڑھ رہا ہے۔
تمباکو نوشی کے صحت پر اثرات
سگریٹ نوشی کا انسان کی صحت پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔ اس میں پھیپھڑوں کے کینسر، دل کی بیماریوں، سانس کے مسائل اور متعدد دیگر امراض شامل ہیں۔ سگریٹ میں موجود نیکوٹین اور دیگر زہریلے مادے انسان کے جسم میں داخل ہو کر مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق، سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
سیگرٹ نوشی کے معاشرتی اثرات
سگریٹ نوشی کا بڑھتا ہوا رجحان معاشرتی سطح پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔ یہ نہ صرف نوجوانوں میں خراب صحت کے مسائل پیدا کرتا ہے بلکہ معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی لا رہا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سگریٹ نوشی کو فیشن اور اسٹیٹس سمبل سمجھ کر اپناتی ہے، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔ اس کے علاوہ، سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے دھوئیں کا اثر غیر سگریٹ نوش افراد پر بھی پڑتا ہے، جسے ‘سیکنڈ ہینڈ اسموک’ کہا جاتا ہے، جو مزید صحت کے مسائل پیدا کرتا ہے۔
اقتصادی اثرات
سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا ایک اور منفی پہلو اس کے اقتصادی اثرات ہیں۔ سگریٹ نوش افراد کی صحت کے مسائل کے باعث صحت کے نظام پر بوجھ بڑھتا ہے۔ مختلف بیماریوں کے علاج پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، جو عوامی اور نجی صحت کے بجٹ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، سگریٹ کی خریداری پر ہونے والی خرچ بھی ایک معاشی بوجھ ہے، جو فرد کے مالی حالات پر اثر ڈال سکتا ہے۔
وجوہات
سگریٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ بہت سے افراد سگریٹ نوشی کو ایک عادت یا تفریح کے طور پر اپناتے ہیں۔ نوجوانوں میں فیشن اور گروہ کے اثرات بھی اس رجحان کو بڑھا رہے ہیں۔ سگریٹ نوشی کے لیے سستا دستیاب ہونے والے مختلف برانڈز اور اشتہارات کا کردار بھی اہم ہے، جو لوگوں کو اس طرف مائل کرتے ہیں۔
حل اور اقدامات
سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، عوامی آگاہی کی مہمیں چلائی جانی چاہئیں تاکہ لوگوں کو اس کے نقصانات سے آگاہ کیا جا سکے۔ حکومتوں کو سگریٹ کی فروخت پر ٹیکس بڑھانے، پابندیاں لگانے اور اشتہارات پر روک لگانے جیسے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طلباء کو سگریٹ کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے تعلیمی پروگرامز کا انعقاد کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی، جو افراد سگریٹ نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں، ان کے لیے مخصوص مشورے اور علاج فراہم کیے جانے چاہئیں۔
سگریٹ کا بڑھتا ہوا رجحان ایک سنگین مسئلہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے صحت، معاشرتی اور اقتصادی اثرات کی وجہ سے یہ ایک اہم عالمی چیلنج بن چکا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے تمام سطحوں پر تعاون اور حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ اس کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے اور آنے والی نسلوں کو اس سے بچایا جا سکے۔
سیگرٹ کے بعد ای سیگرٹ،حکومت کے لیے بڑا چیلنج
Comments are closed.