لیڈر کا صرف ایماندار ہونا کافی نہیں

وسعت اللہ خان

جس طرح عمران خان صاحب کے پاس دو راستے تھے، یا تحریکِ عدم اعتماد کا باوقار انداز میں سامنا کریں یا استعفی دے دیں، اسی طرح تحریکِ انصاف کے پاس اب دو راستے ہیں۔۔۔ یا بطور جماعت خود احتسابی کرے یا پھر دوسروں کی جانب انگلیاں اٹھاتی رہے۔

اگر آپ کو پہلے سے ہی سب معلوم ہے ۔آپ سب کو ان سے بھی زیادہ جانتے ہیں تو پھر کسی بھی طرح کا مکالمہ تو رہا ایک طرف سادہ گفتگو بھی بے معنی ہے۔ لیکن اگر آپ کسی ظاہری ناکامی کو زندگی کے ایک عملی سبق کی طرح دیکھنے کی عادت ڈال لیں تو ہر ناکامی کی تہہ میں اتنی کامیابیاں پوشیدہ ہیں کہ شاید آپ کو ان کا مکمل ادراک کبھی بھی نہ ہو سکے۔

فی الحال بہت گہرائی میں غوطہ زن ہو کر موتی تلاش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سطح پر آس پاس بھی اتنے اسباق تیر رہے ہیں کہ چار پانچ بھی پکڑ میں آ جائیں تو بہت ہے۔

دیکھیے اس ملک کی پینسٹھ فیصد آبادی تیس برس تک کے انسانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے نوے فیصد نے شاید ہی اپنی زندگی میں خوشی اور آسودگی کے کچھ لمحات گذارے ہوں۔ یہ عمر خواب دیکھنے کی ہوتی ہے مگر تعبیر میں اکثر کو بیابان ہی ملتا ہے۔

اس ملک کے اکثر نوجوانوں کو گذشتہ آٹھ عشروں میں چار انسانوں میں رول ماڈل کی جھلک دکھائی دی۔ محمد علی جناح، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان۔

پہلے نے اپنا جو بھی کام تھا مکمل کر کے سپرد کر دیا اور قیدِ حیات سے بہ مجبوریِ عمر رہا ہو گیا۔ دوسرے نے اپنے جواں سال ووٹروں کی امنگوں کو آئینی و انتخابی دائرے میں نبھانے کی کوشش کی مگر اس کی سزا کے طور پر اس کو انتہا پسند سوچ کی جانب دھکیل کر ملک تڑوا دیا گیا۔

تیسرے کو موقع ملا مگر وہ دیگر طاقت ور مفادات کے لیے خطرہ بننے لگا تو راستے سے ہٹا دیا گیا۔

چوتھا یعنی عمران خان وہ لیڈر ہے جسے نہ صرف جاری نظام سے اکتائے مایوس نوجوانوں، بلکہ فوجی اسٹیبشلمنٹ کی بھی حمایت نصیب ہوئی اور عدلیہ کے چند اہم فیصلوں نے بھی بلاواسطہ طور پر اس کو وہ سپیس دیا جس میں وہ اپنا منشور (اگر کوئی تھا) آزما سکے۔

مگر اقتدار کا ہر قیمتی دن لسانی داؤ پیچ کی دلدل میں غروب ہوتا چلا گیا۔ اگر 2023 کے بارے میں زیادہ سوچنے کے بجائے ہر گذرتے مہینے کی تئیس تاریخ پر نگاہ ٹکی رہتی تو شاید حالات قدرے گرفت میں رہتے۔

اس آپا دھاپی میں شاید کچھ بنیادی اسباق ان کی نظروں سے اوجھل رہے اور اس اوجھلیت نے محض پونے چار برس میں بھاری قیمت وصول کر لی۔

پہلا بنیادی سبق یہ ہے کہ جاننے کا مطلب صرف یہی نہیں کہ میں کیا جانتا ہوں بلکہ یہ بھی ہے کہ میں کیا کیا نہیں جانتا۔ دوسرا بنیادی سبق یہ ہے کہ آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔ کامیاب حکمران بولتے کم اور کرتے زیادہ ہیں۔ کم بولے گا تو ہی تولے گا۔ مگر سننے کے لیے خاموشی بنیادی شرط ہے۔

تیسرا بنیادی سبق یہ ہے کہ حکمران کا صرف ایمان دار ہونا کافی نہیں اس کے آس پاس بھی شفاف لوگوں کی موجودی ضروری ہے۔ذاتی ایمان داری بار بار جتانا ہرگز لازمی نہیں۔ چاند کو روزانہ اپنی چمک اور گولائی کا تعارف نہیں کرانا پڑتا۔

ایمان دار تو میرا یار عبداللہ پنواڑی بھی ہے۔ اس بڑھاپے میں بھی وہ صبح سے شام تک کھڑا گردن جھکائے اپنا کام کرتا ہے۔ ہر وقت کھوکھے پر جھمگھٹا رہتا ہے۔ اس سے زیادہ محنتی میں نے بہت کم لوگ دیکھے ہیں۔

مگر لیڈر کو جو شے عبداللہ پنواڑی سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے ویژن۔ عام آدمی کے پاس خواب تو ہوتا ہے پر ویژن نہیں۔ ویژن ایسے خواب کو کہتے ہیں جو عملی تعبیر کے امکانات سے بھر پور ہو۔ ورنہ شیخ چلی سے بڑا خواب گر بارِ دگر آنا تقریباً ناممکن ہے۔

چہارم یہ کہ لیڈر کو کانوں کا پکا ہونا چاہیے۔ میں اگر کان کا کچا ہوں تو اس کا نقصان زیادہ سے زیادہ میرے خاندان، دوستوں یا پڑوس کو پہنچے گا۔ حکمران یا لیڈر اگر کان کا کچا ہو تو اس کا نقصان ملک بلکہ نسلیں بھگتتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ سب سے طاقت ور آدمی ہی دراصل کمزور ترین آدمی ہے۔

جب تک حکمران بیساکھیوں پر ہے تب تک اسے سو میٹر کا چیمپیئن بننے کا خواب نہیں دیکھنا چاہیے اور جب وہ ایک بااختیار حکمران بن جائے اور لوگوں کی زندگی اور مستقبل کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے ہر وقت صبح شام دیکھنا چاہیے کہ کہیں کرسی کا خوشامد انگیز نشہ اس کے فیصلوں پر تو اثر انداز نہیں ہو رہا۔

اور سب سے اہم نکتہ شاید یہ ہے کہ کوئی انسان ناقابلِ شکست و عقلِ کل نہیں۔ سوائے اوپر والے کے کسی آمر کو دوام نہیں۔ جولیس سیزر نے بھی ایک آدمی صرف اس کے لیے وقف کر رکھا تھا جو ہر روز سرگوشی کرے سیزر تو بھی فانی ہے۔( بشکریہ بی بی سی اردو )

Comments are closed.