پی آئی ڈی میں کیا ہو رہا ہے؟

49 / 100
شمشاد مانگٹ

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرپشن جہاں بھی ہو اس کو بے نقاب کیا جائے، تحریک انصاف کی حکومت اگرچہ مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو چکی ہے لیکن جناب عمران خان کے پاس اگر کچھ بچا ہے تو وہ ان کا کرپشن کے خلاف عزم اور حوصلہ ہے اور یا پھر ان کی ذاتی ایمانداری ہے بصورت دیگر حکومت میں شامل زیادہ وزراءاور بیوروکریٹس کہیں نہ کہیں واردات کرتے ہوئے پکڑے جا چکے ہیں۔

وزیر اعظم کے وژن کو مدنظر رکھا جائے تو اس وقت حکومت کا سوفٹ امیج بنانے والا ادارہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور پی ٹی وی گ±وڈے گ±وڈے کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا نظر آتا ہے ۔ پی آئی ڈی کا اصل کام حکومت کے کاموں کو بہترین انداز میں اجاگر کرنا ہے لیکن پی آئی ڈی میں بیٹھے ہوئے ناعاقبت اندیش ٹولے نے دانستہ طور پر صحافتی اجارہ داری کو فروغ دیتے ہوئے ریجنل اخبارات اور صحافی کارکن کا گلا گھونٹ دیا ہے.

ایک کڑوی اور کھری حقیقت یہ ہے کہ جو اخبارات یا میڈیا ہاوَسز حکومت کی دن رات ٹھکائی کرنے میں مصروف ہیں ۔ پی آئی او سہیل علی خان نے سارا بزنس اٹھا کر ان کی جھولی میں ڈال دیا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کا وژن تھا کہ صحافتی اجارہ داری کو توڑا جائے اور عام کارکن کے لئے مواقع پیدا کئے جائیں.

لیکن سہیل علی خان جو کہ حکومت کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر ہیں انہوں نے حکومتی ”پرنسپل “ ہی بدل کر رکھ دیا ہے مثال کے طور پر جو میڈیا ہاوس حکومت کے خلاف ہر وقت” حالت جنگ “ میں ہے اس کا صرف اسلام آباد اسٹیشن سے ماہانہ بزنس تقریباً 3 کروڑ روپے ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ کارکن صحافی بھی اسی گروپ سے بیروزگار ہوئے.

چونکہ ان کی ٹھکائی اثر رکھتی ہے اس لئے سہیل علی خان زیادہ بزنس ان کی جھولی میں ڈال کر اگلے دن کے لئے مزید ٹھکائی کا بندوبست کرتے ہیں، اسی طرح ایک نظریاتی میڈیا ہاوس نے کارکنوں کو نہ صرف بےروزگار کیا بلکہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی ”چٹا “ جواب دے دیا لیکن حکومت اس پر اتنی مہربان ہے کہ اس کا بھی صرف اسلام آباد اسٹیشن کا بزنس ایک کروڑ کے قریب بنتا ہے یعنی صرف سرکاری بزنس۔

ایک اور میڈیا ہاوس جس پر صبح دوپہر شام اپوزیشن کے جذبات اور منشور کا ”ایکسپریس “ ہوتا ہے اس کا بزنس بھی صرف ایک اسٹیشن سے کروڑوں روپے ہے اور اہل دنیاکی ہر حکومت میں دنیا ہی الگ ہوتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ پی آئی او سہیل علی خان کو ریجنل اخبارات کیوں نظر نہیں آتے سوائے کچھ ایسے اخبارات جو ” انڈر دی ٹیبل “ بزنس حاصل کر رہے ہیں.

باقی کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے عالم یہ ہے کہ حکومتی مشینری میں شامل لوگ ایک کمرے میں صحافی کارکن لیڈروں کو بلا کر صحافی کارکنوں کے دکھ دور کرنے کے نسخے پوچھتے ہیں اور کچھ ہی دیر بعد یہی لوگ دوسرے کمرے میں جا کر صحافتی اجارہ داروں کے پاوں پکڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ سپر لیڈ اپنی مرضی کی لگالیں اور لیڈ حکومت کی مرضی کی لگا دیا کریں۔

ہمارے صحافتی لیڈر بھی کارکنوں کی بہبود کے لئے غلط جگہ پر ٹکریں مار رہے ہیں ۔ صحافیوں کی ٹکرانے کی اصل جگہ پی آئی ڈی اور پی آئی او ہے ۔ یہ وہ چشمہ ہے جہاں سے سرمایہ دار اپنے مشکیزے اور کوزے بھر بھر کر لے جا رہے ہیں اور صحافتی کارکنوں کو پیاسا مرنے یا خود کشیاں کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اے بی سی میں بیٹھے ہوئے لوگ بڑے گروپس کے پریس میں جانے کی جرات ہی نہیں رکھتے لیکن اپنی زندگی کی جنگ لڑنے والے اخبارات کے پریس میں آ کر اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جس طرح سود خور لوگ قرضہ داروں کے گھر کے باہر ڈیرہ لگا لیتے ہیں۔

وزیر اطلاعات فواد چودھری سے صحافیوں کی توقعات اس لئے زیادہ تھیں کہ وہ تقریباً صحافی بن چکے تھے اس لئے گمان کیا جا رہا تھا کہ وہ عام ورکر کا دکھ سمجھیں گے لیکن انہوں نے یہ کام سہیل علی خان کے ذمہ لگایا ہے جنہوں نے روایتی نسخے دے کر پہلے سے بھی زیادہ بیماری کو بڑھا دیا ہے۔

گزشتہ روز استاد محترم خوشنود علی خان کے ساتھ سینئر صحافیوں کے ایک وفد نے پی آئی او سہیل خان سے غیر رسمی ملاقات کی اور اس ملاقات میں سہیل علی خان نے حسب معمول اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ اور کچھ پورے نہ کرنے والے وعدے کئے۔

استاد محترم کی تجاویز اپنی جگہ مقام رکھتی ہیں لیکن میری رائے کے مطابق ریجنل اخبارات اور مقامی چھوٹے اخبارات کو زندہ رہنے کے لئے اب ” ڈانگ سوٹے “ کا سہارا لینا پڑے گا.

صحافیوں کو احتجاج کا مرکز پارلیمنٹ چوک نہیں بلکہ پی آئی ڈی بنانا چاہئے کیونکہ کارکنوں کا خون پینے والی جونکیں تو یہاں بیٹھی ہوئی ہیں ۔ اب چونکہ وزیر اعظم کا حکم ہے کہ حکومتی اداروں میں ہونے والی کرپشن سے پردہ ہٹایا جائے.

لہٰذا پی آئی ڈی میں ہونے والی بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی میں ہونے والی کرپشن کو ہم بے نقاب ہم کریں گے۔ سہیل خان صاحب آپ صحافتی اجارہ داروں کی نوکری کریں ہم صحافی کارکنوں کی جنگ پی آئی ڈی سے شروع کریں گے۔

Comments are closed.