یوم خواتین کو ‘میرا جسم میری مرضی’ نہ سمجھا جائے

نجمہ جیلانی (متحدہ عرب امارات)

خواتین کے حقوق کا عالمی دن 08 مارچ کےدن امریکہ میں خواتین کے ساته ہونے والی زیادتی کے احتجاج میں منایا جاتا هے .جو رفتہ رفتہ ساری دنیا میں ایک روایت کے طور پہ منایا جانے لگا.عالمی یوم خواتین بین الاقوامی سطح پہ 8 مارچ کو منایا جاتا هے.اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہےاور لوگوں میں خواتین پہ ہونے والے ظلم وتشدد کی روک تهام هے.

یوم خواتین کے پس منظر کو دیکهاجائےتو هم کو معلوم هوتا هے کہ آخر یہ دن خاص عورتوں کے لئے ہی کیوں منایا جاتا هے.چونکہ اس دن امریکا جیسے لبرل ملک میں خواتین نے اپنی ماہانہ اجرتوں کے مسائل پہ عوامی احتجاج کیا تها.لیکن ان کے اس احتجاج کو گهڑ سورا دستوں کے ٹاپوں سے کچل دیا گیا.اور کئی خواتین گهوڑوں کے ٹاپوں تلے روند دی گئیں.

اس کے بعد 1908میں امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لئے.
"وومین نیشنل کمیشن” بنایا.اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد فروری کی آخری تاریخ کو "خواتین کا عالم دن”منایا جانے لگا.
"عالمی یوم خواتین” سب سے پہلے 28 فروری 1909میں امریکا میں منایا گیا.پہلی عالمی خواتین کانفرنس 1910 میں کوپن هیگن میں منعقد کی گئی.

.08 مارچ 1913کو یورپ بهر میں خواتین کی ریلیاں نکالی گئیں.اور خواتین کے لئے پروگرام کئے گئے. اور اب برسوں سے 08 مارچ کو یوم خواتین عالمی سطح پہ منایا جاتا هے.چین،روس،نیپال،کیوبا اور بہت سے ممالک میں اس دن خواتین ورکرز کی عام تعطیل هوتی هے. اسی طرح سے برصغیر میں بهی یہ دن بہت جوش وخروش س منایا جاتا هے.

لیکن یہاں ایک سوال اٹهتا هے.هم جو دنیا بهر میں کئی طرح کے خاص دن مناتے هیں .کیا اس دن کو منا لینے سے وہ حقوق پورے هو جاتے هیں؟آج بهی هم احتجاج کرتے هیں.اپنے حقوق کے لئے.چونکہ اس وقت میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کررہی هوں.تو بات عورت کی ہی کروں گی.

عورت ایک ایسی شہ هےجس کی حیثیت کے تعین میں ہر دور میں مردوں نے اپنی ذهنی سوچ کو اعلیٰ وارفع دکهانے کی خاطر عورت کو کوئی نہ کوئی روپ دینے کی کوشش کی هے.کبهی اس کو دیوی کا نام دیا اور کبهی اس عورت کے عروج اور باعزت مقام کو برداشت نہ کر کہ اس کو پستی کی انتہا تک پہنچا دیا گیا.

کبهی مذهب اور روایتوں کے نام پہ برہنہ کر دیا تو کبهی اپنی ذاتی انا کی تسکین کی خاطر عورت کورسوا کردیا.افسوس کہ همارے مردوں نے عورت کو همیشہ تنقیدی نظر سے هی دیکها.اور وہ مناسب مقام جو عورت کو اس کے خالق نے عطا کیا.وہ مقام نہ دےکر مرد نے خود معاشرے کا بگاڑ پیدا کیا.مغربی معاشرہ اس کی جیتی جاگتی مثال هے.جہاں کا خاندانی نظام بالکل درهم برهم هے.

معاشرے کی اس ابتری سے پریشان لوگ ان مسائل کے حل کے لئےطرح طرح کے اصول و ضوابط بنا رهے هیں.آج کی عورت خود بهی ایک پرسکون باعزت ماحول و اطوار کی متلاشی هے.جبکہ مرد نےعورت کو ماں،بیٹی،بہن اور بیوی کے روپ میں تو تسلیم کر لیا.لیکن اس کے باوجود عورت کو معاشرے میں آزادانہ ماحول میسر نہ کر سکا.

عورت همیشہ سے اتنی باشعور اور همت والی رهی هےکہ وقت پڑنے پہ یہ ہی عورت مرد کے شانہ بشانہ کهڑی هو کہ اپنے خاندان کی بخوبی کفالت بهی کر لیتی هے جس کہ بیشمار مثالیں موجود هیں.اور وہ تمام ذمہ داریاں اٹهاتی هے جو ایک مرد انجام دیتا هے.بس فرق مرد عورت کی جنسی تخلیق کا هے.جس کا امتیاز اس کے تخلیق کار نے رکها هے.

آج ضرورت اس بات کی هے کہ هماری خواتین اپنے حقوق کو منانے کے لئے باهر تو نکل آئیں .لیکن کیا وہ حقوق ان کو مل گئے .کیوں کہ همارے مشرقی معاشرے میں اور اسلام کی رو سے یہ سب قطعی نامناسب سمجها جاتا هے.لہزا ضرورت اس بات کی هے کہ هماری مائیں،بہنیں،بیٹیاں یوم خواتین کے بجائے اپنے مقام اور مرتبے کو پہچانیں.اور اس نظام کو اپنے اوپر نافذکریں.جس سے معاشرے میں باعزت مقام حاصل هو.

اس دنیا میں نبی کریم آقا دو جہاں حضرت محمد صل للہ علیہ وآلہ وسلم جو دین لے کر آئے.اس نے عورت کو ایک ایسے بلند مقام پر پہنچا دیا جس کا اس تاریک دور میں تصور بهی نہیں کیا جاسکتا تها.اسلام میں عورت کی پیدائش پہ جنت کی خوشخبری دی گئی عورت کو انسان کی تخلیق کا ذریعہ بنایا.عورت کےلئے وراثت میں حق مقرر کیا.نکاح میں حق مہر مقرر کیا.

قرآن پاک میں جگہ جگہ عورت کے ساته اچهے سلوک کرنے کا حکم دیا گیا.ماں کے درجے کو اس قدر بلند کردیا کہ اس کے قدموں تلے جنت کی بشارت کر دی.سبحان اللہ
میری آج کی خواتین سے درخواست هے.کہ اگر آپ کو عورت کے حقوق منوانا هے تو حضرت عائشہ رضی اللہ کی تقلید کرو.کنیز فاطمہ رض اللہ کا صبر لائو.مادر ملت بنو فاطمہ جناح اور رانا لیاقت علی کی طرح .مدر ٹریسا کی جیسی محبت اور نرم دلی پیدا کرو.

بیشمار خواتین دنیا میں ایسی هیں جنہوں نے عوام کی خدمت کی آزادی اور عزت سے .پاکستان میں آج بهی جمہوریت کی ماں محترمہ نصرت بهٹو کو کہا جاتا هے.شہید بینظیر بهٹو جنہوں نے خواتین کے حقوق کےحصول کے لیے جدوجهد کی.محترمہ کلثوم نواز نے تحریک آزادی چلائی اور کامیاب رہیں.

آج میری بہنوں سے گزارش هے.کہ عورت کےحقوق کا عالمی دن میرا جسم میری مرضی نہیں هے.بلکہ کشمیر کی وہ خواتین کے حقوق هیں. جن کے لئے وہ بہتر سال سے جدوجهد کر رهی هیں.یہ دن عورت کے ان جائزحقوق اور تقدس کے حصول کا هے. جس کا اللہ پاک نے بهی حق دیا هے.لہزا آج هم محترمہ ماروی سرمد کے نعرے میرا جسم میری مرضیکی نفی کرتے هوئے .آج کے ٹوٹے پهوٹے اصولوں میں گهری فیشن ایبل عورت کو بتائیں کہ هماری جدوجهد عورت کی عزت کی پاسداری هے.

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص هے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

Comments are closed.