پاکستان کی کم عمر ٹرانس جینڈر ٹرینر، موٹیویشنل سپیکر معصومہ عمر

ثاقب لقمان قریشی

پاکستان کی کم عمر ترین ٹرانس جینڈر ٹرینر اور موٹی ویشنل سپیکر کا انٹرویو
نام: معصومہ عمر رسول
تعلیم: ایف-ایس-سی
رہائش: کراچی
عہدے: 1۔ چیف ایگزیکٹو یوتھ ٹرینگ پروگرام 2۔ انڈیپنڈنٹ ڈسٹری بیوٹر ایکس انٹرنیشنل لمیٹڈ ملیشیاء
اعزاز: پاکستان کی کم عمر ترین ٹرانس پروفیشنل ٹرینر اور موٹی ویشنل سپیکر

خاندانی پس منظر: والدین سرکاری ملازم ہیں۔ معصومہ اکلوتی اولاد ہیں۔
معصومہ کی، زمینی حقائق ڈاٹ کام ،سے خصوصی نشست کی تفصیلات

سوال: والدین نے آپ کو گھر میں کیوں بند کر دیا تھا؟

عام بچوں کی طرح گھر سے باہر نکلنے کی اجازت تھی۔معاشرتی رویوں سے تنگ آکر سات سال کی عمر میں باہر آنا جانا بند کردیا۔ چھ سال قیدیوں کی طرح زندگی گزارنے کے بعد تیرہ سال کی عمر میں گھر سے باہر نکلنا شروع کیا۔ بدترین معاشرتی رویے کو زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول کرنا شروع کر دیا۔

سوال: والدین کو کب یقین آیا کہ آپ ٹرانس جینڈر ہیں؟

ہمارے معاشرے میں ٹرانس جینڈر سے متعلق اتنے غلط تصورات پائے جاتے ہیں کہ والدین نے ابھی تک سچے دل سے ٹرانس جینڈر تسلیم نہیں کیا۔ والدہ کہتی ہیں انھوں نے لڑکے کو جنم دیا تھا اور تم لڑکے ہو۔ والد کسی حد تک تسلیم تو کرتے ہیں لیکن بھر پور ساتھ نہیں دیتے۔

سوال: اگر آپ کے اور بھائی بہن ہوتے تو کیا ہوتا؟

ٹرانس جینڈر تیسری جنس ہیں۔ ہمارے معاشرے نے اس حقیقت کو ابھی تک سچے دل سے قبول نہیں کیا۔ معصومہ کہتی ہیں اگر انکے اور بھائی بہن ہوتے تو جو شفقت اور پیار آج انھیں اپنے والدین سے مل رہا ہے شاید یہ اس سے محروم رہتیں۔

سوال: آپ کے والدین معاشرتی دباؤ کا کیسے مقابلہ کرتے تھے؟

والدین پر محلے اور خاندان کا شدید دباؤ رہتا تھا ۔ ہر وقت طرح طرح کی باتیں اور مشورے سننے کو ملتے تھے۔اکثر پریشان بھی ہو جایا کرتے تھے۔دباؤ کو معصومہ تک منتل نہیں ہونے دیتے تھے۔ایک دوسرے کو سمجھا بجھا کر دباؤں کا ازلہ کر لیا کرتے تھے۔

سوال: سکول کی زندگی کیسی گزری؟

چھوٹی جماعتوں میں سب کچھ نارمل چلتا رہا۔ عام بچوں کی طرح سکول جانا، بچوں کے ساتھ کھیلنا ، مل کر سبق یاد کرنا سب نارمل تھا۔ ساتوں جماعت تک پہنچتے پہنچتے چیزیں تیزی سے تبدیل ہونا شروع گئیں ۔بچوں کا رویہ مذاق سے بدتمیزی میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ سکول جانا بہت کم کر دیا ۔ دسویں جماعت تک سکول میں حاضری بہت کم رہی۔ کوشش کرتی تھی کہ سبق گھر میں ہی یاد کر لوں ۔ نامناسب رویے اکثر ٹینشن میں مبتلا کر دیا کرتے تھے۔

سوال: کیا آپ کو کبھی ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی ۔

طرح طرح کے سوالات، القابات اور جملے سے ذہنی دباؤ کاسامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایک بار سکول کے ایک فنکشن میں خواتین کے لباس میں ڈانس کرنے کا موقع ملا۔ پرفارنامس تو بہت اچھی رہی۔ لیکن فنکشن کے اختتام پر سکول کے کچھ لڑکوں نے ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی تشدد بھی کیا۔ اس واقعے نےشخصیت کو بڑا نقصان پہنچایا۔ باہر نکلنے سے ڈرنے لگ گئیں، اعتما د بری طرح متاثر ہوا۔

سوال: چھوٹی سی عمر میں پبلک سپیکر کیسے بن گئیں؟

بچپن سے ہی بہترین انگریزی بول لیتی تھیں، لہجے میں مزید نکھار پیدا کرنے کیلئے سپوکن انگلش انسٹیٹوٹ میں داخلہ لے لیا۔ انسٹیٹوٹ میں بھی باہر جیسے ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن یہاں اپنے بارے میں سمجھانے میں کامیاب رہیں۔ کورس کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد ایڈوانس انگلش کے مزید کورس کیئے۔ کوزسز نے انگریزی بولنے اور لکھنے کی مہارت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔
آہستہ آہستہ معصومہ کو ٹرانس جینڈرز کے مسائل پر ہونے والی مباحثوں پر مدعو کیا جانے لگا۔مختصر سے عرصے میں یہ پاکستان کی کم عمر ترین پبلک سپیکر کے طور پر جانی جانے لگیں۔

سوال: کن کن اداروں کے ساتھ کام کر رہی ہیں؟

نیٹ ورک مارکیٹنگ کر رہی ہیں۔ ایکسن انٹرنیشنل لمیٹڈ ملیشیاء کی انڈیپنڈنٹ ڈسٹریبیوٹر ہیں۔ پاکستان میں انکی اشیاء کی مارکیٹنگ اور سیلز کو دیکھتی ہیں۔ سب رنگ سوسائٹی نامی این-جی –او کے ساتھ بھی کام کر رہی ہیں۔

سوال: ٹرانس جینڈرز کے حوالے سے معاشرتی سوچ کو کیسے بدلا جا سکتا ہے؟

معاشرتی رویوں میں فوری تبدیلی نہیں لائی جاسکتی یہ ایک سست اور پیچیدہ عمل ہے۔ سب سے پہلے ٹرانسجیندرز کو اپنے آپ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اپنے آپ کوتعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنا ہوگا۔بھیک، ناچ گا نا اور سسکے ورک جیسے بیہودہ کاموں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ اپنی شناخت بنانی ہوگی تب کہیں جاکے معاشرے کی سوچ میں تبدیلی آئے گی۔

سوال: ٹرانس جینڈرز بھیک ، ناچ گانے اور سیکس ورک میں کیسے آگئے؟

مغلیہ دور میں خواجہ سراؤں کو بہت عزت دی جاتی تھی۔ محلوں کی سیکورٹی اور خاص امور پر خواجہ سراء فائز تھے۔ خوشی کے موقعوں پر خواجہ سراء ناچ لیا کرتے تھے اور انھیں ودہائیاں لیا کرتے تھے۔ انگریز کے ظالمانہ دور میں برصغیر کو بےدردی سے لوٹا گیا۔ اس لوٹ مار کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے روزگار اہوگئے اور غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی جینے لگے۔ خواجہ سراؤں کے سر سے جب بادشاہوں کا ہاتھ چھن گیا، روزگار چلا گیا تو انھوں بھیک، ناچ گانے ، ودہائیوں اور سیکس ورک کے ذریعے اپنا پیٹ پالنا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ اسی وقت سے چلا آ رہا ہے۔

سوال: ٹرانس جینڈرز کو تشدد کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟

ہمارا معاشرہ مردانہ معاشرہ تصور کیا جاتا ہے۔ مرد خواتین اور خواجہ سراؤں کو دوسرے درجے کا انسان سمجھتے ہیں اسی لیئے خواتین اور خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات آئے دن سننے کو ملتے ہیں۔ ٹرانس جینڈرز کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ گھروں سے نکالے ہوئے لوگ ہیں اور انکا کوئی والی وارث نہیں اسلیئے انھیں آسان شکار سمجھا جاتا ہے۔ پھر ٹرانس شادی بیاہوں کے فنکشنز میں ناچ گانا بھی کرتی ہیں۔ جہاں اکثر لوگ نشے کی حالت میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ نشے میں دھت افراد ٹرانس پر تشدد کرنے لگتے ہیں۔

سوال: پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ٹرانس کمیونٹی پر تشدد کے واقعات دوسرے صوبوں سے ذیادہ کیوں ہوتے ہیں؟

سندھ اور بلوچستان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹرانس جینڈرز مظلوم ہیں اور یہ کہ خدا مظلوم کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہاں ٹرانس جینڈر سے دعا کروائی جاتی ہے۔ پنجاب اور خیبر میں معاملات الٹ چل رہے ہیں۔ اسی لیئے خواجہ سراؤں کے قتل اور تشدد کے بشتر واقعات انہی صوبوں میں رونما ہوتے ہیں۔

سوال: ٹرانس جینڈرز پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں کمی کیسے لائی جاسکتی ہے؟

ٹرانس جینڈر پیٹ بھرنے کیلئے ڈانس اور جسم فروشی جیسے کام بھی کرلیتے ہیں۔ اگر انھیں روزگار فراہم کردیا جائے تو ہراسانی کے واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ والدین کو پابند کیا جائے کہ ٹرانس بچوں کو ڈیروں پر نہ چھوڑیں ، اڈوں اور ڈیروں پرتعلیم اور ہنر دینے کا اہتمام کیا جائے۔ اسطرح کے مثبت اقدامات ٹرانس جینڈرز کو معاشی استحکام دیں گے جس سے تشدد کر واقعات واضع کمی آئے گی۔

سوال: یوتھ ٹریننگ فارم کب تشکیل دیا اور یہ کیا کام کرتا ہے؟

یوتھ ٹریننگ فارم ایک ٹریننگ انسٹیٹوٹ ہے۔ یہاں جینڈر بیس وائلنس پر بات کی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کے معروف سماجی کارکن ان ٹریننگز اور مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اب تک دس بارہ سیشنز منعقد کیئےجا چکے ہیں۔ کرونا کی وجہ سے کچھ سیشنز متاثر ہوئے ہیں۔ آجکل آن لائن سیشنز کے ذریعے ٹریننگز کا دوبارہ سے آغاز کر دیا گیا ہے۔
یوتھ ٹرینگ فارم آگہی کا موثر ترین ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔ سارے ملک سے بھرپور پزیرائی مل رہی ہے۔معصومہ مختلف این-جی-اووز کے ساتھ مل کر آگہی کے اس سلسلے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔

سوال: ایف-ایس-سی کے بعد کیا کرنا چاہتی ہیں؟

ڈاکٹر بننے کی خواہش ہےاگر یہ خواب پورا نہیں ہوا تو دوسرا آپشن بی-فارمیسی ہوگا۔ ماسٹر سرجزی یا ادویات میں کرنے کی ارادہ رکھتی ہیں۔ کوشش کرتی رہیں گی کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی کمیونٹی کی خدمت کے سلسلے کو بھی جاری رکھ سکیں۔

سوال: فارغ وقت میں کیا کرتی ہیں؟

کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ کامیاب لوگوں کی زندگی ،نئے کاروبار اور جدید تحقیق پر لکھی گئیں کتابیں پڑھنا پسند ہیں۔ پودوں کی دیکھ بھال، کوکنگ اور بیکنگ فارغ اوقات کے مشاغل میں شامل ہیں۔

سوال: مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں؟

ٹرانس کمیونٹی کو مساوی انسانی حقوق دلوانا چایتی ہیں۔ کوشش کریں گی کہ تعلیم کا سفر پی-ایچ-ڈی کے بعد بھی نہ رکے۔
سوال: ٹرانس کمیونٹی کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
تعلیم اور ہنر ایسی چیزیں ہیں جو ٹرانس جینڈرز کو انکا کھویا ہوا مقام دلوا سکتے ہیں ۔ آئیں مل کر عہد کریں کہ زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کریں گےکمیونٹی کیلئے شرم کا باعث بنے۔

Comments are closed.