”ہیجانات کے مارے ہجوم کالندن میں مظاہرہ“

برطانیہ کے قبضے میں رہنے والے ملکوں پر مشتمل برطانوی تنظیم ” کامن ویلتھ “ دولت ِ مشترکہ کا سالانہ سربراہی اجلاس لندن میں گزشتہ ماہ اختتام پذیر ہو ا۔ کامن ویلتھ اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی برطانیہ آمد پر اس کے خلاف جہاں آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت اور اورسیز پاکستانی و کشمیری کمیونٹی نے احتجاج کیا اورکشمیر میں اقلیتوں، خواتین ، نوجوانوں اور بچیوں سے بہیمانہ اور وحشیانہ بھارتی سلوک اور انسانی حقوق کی سلسلہ وار خلاف ورزیوں کے خلاف شدید نعرہ بازی کی وہاں سکھ کمیونٹی نے بھارتی حکومت کے خلاف اور خالصتان تحریک کی حمایت میں نعرے بازی کی، اور دلت موومنٹ سے وابستہ انڈین دلت کمیونٹی نے بھی ذات پات کے قانون جو دلت کمیونٹی کے معاشرتی حقوق کی دھجیاں اُڑاتا ہے ،کے خلاف اور بھارت کے ظالمانہ نظام کے خلاف ا پنا حتجاج اقوام ِ عالم تک پہنچانے کی کوشش کی اورآزادی کے حق میں نعرے لگائے۔

لندن سمیت برطانیہ کے دوسرے شہروں میں ہندوستان کے خلاف اس طرح کے مظاہرے اہم قومی دنوں پرعموماََ کیے جاتے ہیں لیکن یہ مظاہرہ تعداد کے لحاظ سے بلاشبہ ایک بہت بڑا مظاہرہ تھا جس میں برطانیہ میں بسنے والی کشمیری و پاکستانی کمیونٹی اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شریک ہوئی اور دنیا کی توجہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی جانب مبذول کروانے کی بظاہرکوشش کی گئی۔ اجلاس تو ختم ہو گیا اور احتجاج بھی ہوا لیکن پارلیمنٹ ا سکوائر پر ہونے والے اس احتجاج کی بازگشت اب بھی بھارت اور برطانیہ میں زور و شور سے جاری ہے۔بھارتی تنظیموں کی طرف سے آن لائن پٹیشن کی دستخطی مہم چلائی گئی ہے جس پرہزاروں افراد اب تک دستخط کر چکے ہیں، جس میں برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ بھارت کا قومی پرچم اُتارنے والوں کے خلاف نہ صرف سخت قانونی کاروائی کریں بلکہ ایسے لوگوں کو ملک بدر کیا جائے۔

برطانوی ادارے بی بی سی نیوزکے مطابق بھارت اس واقعہ کے فوری بعد سے ہی مختلف زاویوں سے برطانوی حکومت پر مسلسل دباوٴ ڈال رہا ہے کہ وہ اس واقعہ پر ہندوستان سے معافی مانگے اور ان افراد کے خلاف قانونی کاروائی کرے ۔جواب میں برطانوی فارن آفس کی طرف سے بیس اپریل کو ایک بیان جاری کیا گیا ، جس میں اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ”لوگوں کو حق ہے کہ وہ پرُامن احتجاج کریں لیکن چھوٹی سی اقلیت کی جانب سے پارلیمنٹ اسکوائر کے سامنے اس اقدام کو بدقسمتی قرار دیا گیا“۔ اس واقعہ کے بعد بھارتی پرنٹ و الیکٹرونک میڈیاکو لندن کانفرنس میں بھارتی پرچم اتارنے پر یہ موقعہ مل گیا کہ وہ اس بات کا پروپیگنڈا کریں کہ انتہا پسند لوگوں کی جانب سے سرکاری طور پر آویزاں اُنکا قومی پرچم اُتار کر اسکی نہ صرف بے حرمتی کی گئی بلکہ برطانوی قانون اور سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی گئی اور ایسے لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔جس سے اس مظاہرے کی اصل روح کو شدید دھچکا پہنچا۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم نے مظاہرے کے ذریعے خود کو دنیا کے سامنے ایک وقتی جذبات رکھنے والی بے وقوف قوم کے طور پر منوا یا،اور یہ ثابت کیا کہ کشمیری جہلا کی فوج انڈین پڑھی لکھی لابی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ در حقیقت یہ مظاہرہ کم اور ایک طوفان بدتمیزی زیادہ، احتجاج کم اور سلفی شو زیادہ تھا ، اسے سیلف پروجیکشن اور پروموشن ہی لکھا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ برطانوی ممبران پارلیمنٹ جن میں انگریز بھی موجود تھے بغیر اپنے حمایتوں اور چیلے چمچوں کے اس مظاہرے میں شریک ہوئے لیکن اس دھکم پیل ،غل غپاڑے اور ہاتھا پائی کی وجہ سے دور کھڑے مظاہرین کی حرکتیں دیکھتے رہے۔ مظاہرین میں شامل ہر شخص اپنے اپنے لیڈر کے ساتھ اس طرح چپکا ہوا تھا جیسے باغی بیل کی جوڑی میدان میں آتی ہے اور اس کے گتے کے ساتھ لوگ چپکے ہوتے ہیں۔جو لوگ حقیقی طور پر کشمیر کاز کے لئے گئے انکی کاوشوں پر فوٹواور سیلفی مافیا بھاری رہا۔

ہر کوئی ذاتی تصویریں اور بے سری و بے ڈھنگی سلفیاں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی زینت بنانے میں مگن رہا ، اپنے اپنے لیڈران کو پرموٹ کرنے کے چکروں اور سٹیج پر چڑھ کر تقاریر و نعرے بازی کے شوق میں سب اصول نظر انداز اور روادری اور عزت نفس کو پامال کیا گیا۔کشمیری سلوگن اور اہم وجوہات و مقاصد جن کی بنا پر مظاہرہ ہوا انہیں پس ِ پُشت ڈال دیا گیا۔سیاسی و مذہبی لیڈر شپ جو پاکستان و آزاد کشمیر سے یہاں تشریف لائی انہیں اُنکے حمایتیوں نے اس قدر گھیرے ڈالے ہوئے تھے جیسے ان کے لیڈران کو کسی سے خطرہ ہو۔؟ حقیقت میں دیکھا جائے توبرطانوی متحرک نوجوانوں اور تحریک آزادی کیساتھ وابستہ سنجیدہ افراد کی محنت پر پانی ڈالنے کی پوری کوشش کی گئی اور اس مظاہرے کو آزاد کشمیر کی ذمہ دار سیاسی قیادت کی موجودگی میں فوٹو مافیا، اور ہمارے نالائق برطانوی لوگوں نے فوٹو کھینچوانے کے چکر میں تباہ کر دیا اور یہ لیڈران اپنے پیروکاروں کی اخلاقی و سیاسی تربیت کرنے میں بُری طرح ناکام رہے جو اُنکی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہی احتجاج اگرطریقے و سلیقے سے، نظم و ضبط ، تنظیم اور مثبت اجتماعی رویے کے ساتھ کیے جائیں تو کہی ہوئی بات زیادہ موٴثر اور دنیا آپکی بات سننے کے لئے بھی تیار ہوتی ہے۔ لیکن اگر جنگلی انداز میں احتجاج کیا جائے ،نظم و ضبط کا شدیدفقدان ہو، رویے انتہائی جارہانہ ہوں تو ان مارچوں اور احتجاجی مظاہروں سے آپکے پورے مشن کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ ہمیں اپنے اجتماعی رویوں پر غور کرنیکی ضرورت ہے اور سوچنا ہے کہ ہم برطانیہ جیسے ملک میں یہ احتجاج کر رہے ہیں اور ایک مشن کی نمائیندہ اور اپنے ملک کے سفیر کی حیثیت سے یہاں ان مظاہروں میں کھڑے ہیں۔اگر بات کرنیوالے کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور سننے والے کو بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا سن رہا ہے اور وہ یہاں کیوں موجود ہے تو پھر جو نتیجہ نکلے گا وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر ہم برطانیہ جیسے ملک میں سرکاری طور پر آویزاں کسی ملک کے جھنڈے کو اتار کر اسے پھاڑیں گے اور اسکی بے توقیری کریں گے اور پاوٴں تلے روندیں گے ، پولیس کی حفاظتی حصار اور باڑ کو توڑیں گے ۔
پہلے سے طے شدہ حدود و قیود کو زور زبردستی توڑیں گے یا عبور کریں گے ، اور اجازت نامے کی شقوں کی مسلسل خلاف ورزی کریں گے تو پھر ہمارا حشر کیا ہونا ہے اس سے سب بے خبر ہیں اور ہمارے ان روز روز کے مظاہروں اور جلسے جلوسوں سے ہمارے مسائل تو حل نہیں ہونگے البتہ ہمارے لئے مسائل ضرور پیدا کرینگے اورجس طرح ان ملکوں میں ہم مظاہرے کرتے ہیں ، سمجھو ہم اپنے خلاف مظاہرے کرتے ہیں اور اپنا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہم نے تحریک آزادی کشمیر کو آگے لیکر جانا ہے اس کے لئے کچھ اصول و ضوابط طے کرناہوں گے جنکے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ دنیا پہلے ہی دہشت گردی کا لیبل لئے پھرتی ہے اور اگر ہم دنیا کے سامنے ایسی حرکتیں کریں گے اور اپنا ایسا چہرہ پیش کریں گے تو پھر دنیا اگر ہمیں ایک شدت پسند اور انتہا پسند قوم قرار دیتی ہے اور یہاں پر ہماری آزادی اظہار رائے اور حق احتجاج سلب کرنے کے حوالے سے سخت قوانین بنتے ہیں تو ہمیں برا نہیں منانا چاہیے۔۔! !

اگر نظم و ضبط اور تنظیم اور بالخصوص یہاں کے قوانین کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا تو مجھے یہ غالب گمان ہے کہ نہ صرف ہمیں مستقبل قریب میں
گورنمنٹ کی جانب سے ان مظاہروں اور مارچوں کی اجازت نہیں ملے گی بلکہ ہماری لیڈر شپ جو ان مظاہروں میں شرکت کرنیکی غرض سے یہاں آتی ہے انکو ویزے جاری کرنے سے ہی انکار کر دیا جائے گا جس کی ماضی میں مثالیں موجود ہیں۔!میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ قوم کشمیر کو کیسے آزادی دلائے گی۔! یہ قوم کیسے منزل پائے گی جسے اپنی سمت کا پتہ تک نہیں اویہ قوم کیسے عروج پر جائے گی جو ابھی تک اپنی ذات کی انا سے باہرنہیں نکل پائی۔ ۔! صد افسوس یوکے جیسے مہذب ملک میں آکر بھی لوگوں نے ڈسپلن نہیں سیکھا تو پھر کہاں سیکھیں گے۔ کیا ہم اپنے ارادہ و مرضی سے آنجہانی ہونے جا رہے ہیں ۔؟ کیا ہم قوم کے مفہوم سے نکل کے ہجوم کے مفہوم میں داخل ہورہے ہیں۔؟ یاد رکھیئے زندہ رہنے اور آزاد و خود مختار ہونے کا حق قوموں کو حاصل ہوا کرتا ہے نہ کہ ہجوم کو۔؟اگر قوم اور ہجوم کے اس فرق سمجھا جائے تو موضوع کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ ۔!!

Comments are closed.