صبح کی طلب نہیں !

شمشاد مانگٹ

پورے ملک میں سیاسی ہلچل اس وقت عروج پر ہے۔تحریک انصاف میں شامل ہونیوالوں کا بھی تانتا بندھا ہوا ہے اور تحریک انصاف سے”دکھی“ ہونیوالوں کی فہرست بھی طویل ہوتی جارہی ہے۔عمران خان نے آہستہ آہستہ خود کو پاکستانی سیاسی کلچر سے ہم آہنگ کرلیا ہے۔گزشتہ عام انتخابات تک انکا ”نظریہء الیکشن “ یہ تھا کہ وہ جس کو بھی ٹکٹ دیں گے لوگ اسے ایمانداری کا استعارہ سمجھ کر صندوق ووٹوں سے بھر دیں گے لیکن پنجاب میں عوام نے اس سوچ کو تقریباً رد کردیا۔

اب عمران خان نے پنجاب سے بڑے بڑے نام اپنی پارٹی میں شامل کرلئے ہیں حالانکہ ماضی میں عمران خان کا ان کے بارے میں کہنا تھا کہ”داغدار“ لوگوں کیلئے تحریک انصاف میں گنجائش نہیں ہے لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف میں اگر جگہ ہے تو صرف”داغداروں“ کی ہے۔علاوہ ازیں سینیٹ الیکشن نے عمران خان کا زرداری کے ساتھ ملکر سیاست نہ کرنے کا”زعم“ بھی توڑ دیا ہے۔

بظاہر اس وقت حالات وواقعات اور قدرت عمران خان پر مہربان نظر آتے ہیں کیونکہ نامور سیاستدان انکی ”اقتداء“ میں اکٹھے ہو رہے ہیں اور بدترین مخالفین عدالتوں سے تاحیات نااہلی کے سرٹیفکیٹ وصول کر رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مہربان”ہوائیں“ چلانے میں ”مرشد“ اہلیہ کا بہت عمل دخل ہے۔لیکن مرشد اہلیہ کے بارے میں بھی متضاد خبریں آرہی ہیں۔ماضی میں جب عمران خان اور ریحام خان کے درمیان اختلافات میں شدت آئی تھی تو اسکی ایک وجہ عمران خان کے گھریلو ملازمین کو دیا گیا“دیس نکالا“ بھی تھا۔

پھر ملازم واپس آگئے اور ریحام خان کو نکال دیا گیا۔
اب اطلاعات یہ ہیں کہ عمران خان کے پالتو کتے”شیرو“ کو مرشد اہلیہ نے”دیس نکالا“ دے رکھا ہے اور تازہ ترین غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق شیرو واپس آگیا ہے اور ”مرشد اہلیہ“روٹھ کر سابقہ شوہر کے ساتھ والے گھر چلی گئی ہیں جہاں انکے بچے رہتے ہیں۔البتہ بنی گالہ کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ سب کچھ اپنی جگہ پر موجود ہے۔

بہرحال تقریباً چار پانچ ماہ پہلے جب عمران تیسری بار ”باضابطہ“ ہاتھ پیلے کر رہے تھے تو شادی شدہ تجربہ کار دوستوں کا خیال تھا کہ ابھی عام انتخابات میں5ماہ باقی ہیں اور انتخابات سے پہلے عمران خان کہیں تیسری بار علیحدگی کی ”کھچ“ نہ ماردیں۔جس طرح میاں نوازشریف سے یہ بات”پکی“ منسوب ہوچکی ہے کہ وہ اقتدار میں کلہاڑی ساتھ لیکر آتے ہیں اور مارتے صرف اپنے پاؤں پر ہیں بالکل اسی طرح عمران خان کے حوالے سے یہ بھی باتیں مستند سمجھی جانے لگی ہیں کہ وہ”کھچ“مارتے وقت معاملے کی نزاکت کا کبھی خیال نہیں کرتے۔

دھرنے کے عروج پر انہوں نے میاں نوازشریف سے استعفی لیتے لیتے مولوی سے ریحام خان کے ساتھ نکاح کا سرٹیفکیٹ لے لیا تھا۔

بلدیاتی الیکشن عروج پر تھے اور عمران خان نے ریحام خان کو طلاق دیکر بے وقت سیاسی غلطی کرنے کی اپنی عادت کو برقرار رکھا۔موجودہ سال الیکشن کا سال تھا اور الیکشن سرپر ہوں تو شادی شدہ سیاست دان اپنے بیوی بچے بھول کر عوام کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں لیکن عمران خان نے اس نازک وقت میں بھی شادی کیلئے وقت نکال کر ثابت کردیا وہ کس وقت کیا کریں گے کسی کو کچھ پتہ نہیں۔اب الیکشن سر پر آچکے ہیں ملک بھر میں عمران خان کو اگلے وزیراعظم کے روپ میں دیکھا جارہا ہے لیکن بنی گالہ سے ایک بار پھر”دھواں سا“ اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بنی گالہ کے اندر کیا چل رہا ہے؟۔

عوامی توقعات تویہی ہیں کہ عمران خان ہوسکتا ہے کہ الیکشن سے پہلے ایک بار پھر اپنی نجی زندگی کے حوالے سے زیادہ خبروں میں آجائیں۔عمران خان کی گھریلو زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے انکے مخالفین درست تنقید کرتے ہیں اور باربار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جس لیڈر سے اپنا گھر نہیں چل رہا وہ پورے ملک کو کیسے چلائے گا؟ اور جو لیڈر اپنی شریک حیات کو ساتھ لیکر نہیں چل سکتا وہ چوہدری نثار جیسے اور سینکڑوں دیگر لوگوں کو ساتھ لیکر کیسے چلے گا ؟
کہا جاتا ہے کہ نمبرون بننا مشکل نہیں ہے لیکن اس پوزیشن پر خود کو برقرار رکھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

عمران خان متبادل قیادت کے طور پر پہلی پوزیشن پر تو آگئے ہیں لیکن اس پوزیشن کو برقرار رکھنے کیلئے انہیں پہاڑ جیسا حوصلہ اور سمندر جیسی برداشت پیدا کرنا ہوگی۔اب عمران خان کے ساتھ وہ نوجوان نہیں ہیں جو انہیں ہر حال میں ہیرو مانتے تھے۔اب انکے اردگرد مختلف المزاج اور مختلف توقعات رکھنے والے ملک کے بڑے سیاستدان موجود ہیں۔عمران خان کے لئے عوام سے بھی پہلے ان سینئر سیاستدانوں کو راضی رکھنا بہت ضروری ہوگا وگرنہ اچھی وزارت ،اچھا کوٹہ اور اچھی توجہ نہ ملنے پر ان میں سے کئی سینئر سیاستدانوں میں مخدوم جاوید ہاشمی کی روح حلول کرسکتی ہے۔

ابھی تو عمران خان چوہدری نثار کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی بہت آرزو رکھتے ہیں اور چوہدری نثار وہ کڑوی گولی ہے جسے40سال میں نوازشریف ہضم نہیں کرسکے۔میاں نوازشریف”معدے“ کے لحاظ سے عمران خان کی نسبت بہت زیادہ مضبوط ہیں اگر میاں نوازشریف چوہدری نثار کو راضی نہیں رکھ پائے تو عمران خان اور چوہدری نثار کا ”نباہ“ریحام خان کے ساتھ ”نکاح“ سے بھی کم مدت چل پائے گا کیونکہ تحریک انصاف خان پر خان کا فارمولا برداشت نہیں کرپائے گی۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان نے الیکشن کی جنگ جیتنے کیلئے اچھا”لشکر“ تیار کرلیا ہے لیکن پی ٹی آئی کے کارکنوں کے دل کی آواز بقول شاعر کے یہ ہے۔

یہ دکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب نہیں

Comments are closed.