امی جی ۔ ۔۔۔چند یادیں

شہریار خان

امی جی اکثر لاڈ میں کہا کرتیں اگر میں نہیں رہی، دنیا سے چلی گئی تو کیا کرو گے؟۔۔ میں لاڈ سے اور زیادہ لپٹ جاتا اور کہتا کہ میں آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گا۔ وہ اس بات پہ ہنس پڑتیں، مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ بات بڑے ہو کر کتنا دکھ دیتی ہے۔

کیونکہ آپ کتنے بھی طاقتور اور پیسے والے کیوں نہ ہوں۔۔ آپ اپنے پیاروں کو جانے سے نہیں روک پاتے۔
جب بھی کوئی مشکل درپیش ہو ۔۔ آپ اپنی ماں کو پکاریں اور جواب میں میں صدقے میں واری اپنی جان کے ۔۔ یہ نہ سن سکیں تو سمجھ لیں اب مشکلات کا دور زندگی میں داخل ہو چکا ہے۔

کبھی نہیں سوچا تھا امی جی بھی کبھی بیمار ہو سکتی ہیں ۔۔ وہ جو صبح سویرے منہ اندھیرے اٹھ کر نماز پڑھ کے قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے بعد لمبی سیر کر کے آتیں، ہم سب کو اٹھایا کرتیں، سبزی گوشت بھی خود لایا کرتیں۔ سارا دن بھاگ بھاگ کے سب کی خدمت کرتیں۔

رات گئے ابو جی کے آنے پہ انہیں تازہ روٹی بنا کر دیتیں، سب کے سونے کا بندوبست کرنے کے بعد بھی کبھی ان کے لہجہ میں کوئی شکایت نہیں ہوتی تھی۔ بس اک مسکراہٹ چہرہ پہ سجائے بلا تعطل کام کیے جاتیں،ہمیں دوپہر بھی آرام کرواتیں لیکن خود اس وقت بھی کچھ کر رہی ہوتیں۔

کوئی وظیفہ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کے لیے کپڑے تیار کرنا، سردیاں ہوں تو کبھی گاجر کا حلوہ کبھی بیسن کا حلوہ تیار کرنا، اچار بنا بنا کر مرتبان بھرنا، مکھن جلا کے دیسی گھی نکالنا، موسم سرما آنے سے پہلے خود ہی تمام رضائیوں کے دھاگے کھول کر انہیں الگ الگ کر کے رکھنا پھر ان میں دوبارہ بھرائی کروانی۔

کبھی ہمارے سکول کے ایونٹس میں یا بڑے بہن بھائیوں کے مشاعروں میں شرکت کرنے کے بعد بھی گھر میں داخل ہوتے ہی ہمارے کپڑے بدلنے اور منہ ہاتھ دھو کر آنے تک کھانا دسترخوان پر سجا کر ہر بچے کو اس کی پسند کے مطابق روٹی کھلاتیں۔

گھر میں ہر وقت مہمانوں کی ریل پیل ہونی۔۔ کبھی باہر سے کھانا منگوانے کا تصور بھی نہیں تھا۔ اپنے شوق سے گھر میں دعوتیں کیا کرتیں۔۔ ننھیال، ددھیال کے علاوہ دور پرے کے جاننے والے بھی آ جائیں تو بھی دونوں وقت پہ دو دو ڈشز ایسے تیار کرنی کہ معلوم ہی نہ ہو کہ کب تیار کیں۔

گھر میں ہر وقت شامی کباب فریزر میں رہتے، اچانک مہمان گھر آنے پہ کبھی یہ نہیں ہوا کہ ہمیں بھاگ کر مارکیٹ سے چائے کا سامان لانا پڑے، کباب فرائی کیے، ساتھ میں دہی بھلے بھی گھر کے ہی ہوتے، ابلے ہوئے چاولوں سے خود کچریاں بناتیں جس کے حوالہ سے سب پوچھتے کہاں سے خریدی ہیں؟۔

گھر میں ہر وقت مہمانوں کی آمد و رفت پر ہم لوگ کبھی کبھی چڑ جاتے تو کہتیں بیٹا مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اپنا رزق لے کر آتے ہیں اور تم بھی ان کے نصیب کا کھاتے ہو۔ واقعی معلوم بھی نہیں ہوتا تھا، محلہ میں دور دور تک گاڑیاں لگی ہوتیں جب ابو جی اپنے دوستوں کی پایا پارٹی کرتے۔
دیگ جیسی بڑی سی دیگچیاں صحن میں الگ چولہا بنا کر امی جی خود بناتیں، اس کے ساتھ باریک کٹی ہوئی ادرک، براؤن پیاز، ہری مرچیں اور مصالحہ سب ایسے سجا ہوتا کہ کیا کسی ریسٹورنٹ پہ ایسی سجاوٹ دکھائی دے۔

خود اپنی شوگر ہائی ہو یا بلڈ پریشر کبھی ہم پہ غصہ نہیں کیا۔۔ نہ ہی آرام کرتے دکھائی دیں لیکن کبھی ابو جی یا ہم بیمار پڑ جاتے تو بس ہمیں اٹھنے نہیں دیتی تھیں، ہمارے لیے پرہیزی کھانے بنانے۔۔ آرام کا خیال رکھنا اور اس میں بھی کبھی تھکاوٹ کا ہلکا سا بھی اظہار نہیں کیا۔

شاید اس لیے اپنی ساری تھکن جمع کرتی رہیں اور پھر ایک ہی بار آرام کرنے کے لیے چلی گئیں۔
آج زندگی میں جب مشکلات سر اٹھا کر کھڑی ہوتی ہیں تو خیال آتا ہے امی جی ہوتیں تو کہتیں کیا ہوا ؟۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

مجھے یاد ہے معمول کے مطابق تو ہر مہینہ دو مہینہ میں قرآن خوانی اور میلاد شریف کا اہتمام کرتیں لیکن ربیع الاول میں یکم سے بارہ تک صبح مردانہ اور شام کو زنانہ محافل کا انعقاد ہوتا ۔ اس کے علاوہ کبھی کسی ضرورت پڑنے پر آیت کریمہ کا سوا لاکھ کا وظیفہ کرنا۔۔

اس لیے کبھی بھی کوئی بھی پریشانی ان کے سامنے زیادہ دیر تک ٹکتی نہ تھی۔ انیس برس بیت گئے ہیں لیکن آج بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں تو چشم تصور میں ان کا مسکراتا چہرہ دکھائی دیتا ہے جیسے کہتی ہوں بیٹا سب ٹھیک ہو جائے گا، اللہ پہ بھروسہ رکھو۔

پیار ہم سے اتنا کہ والد کی محدود تنخواہ میں سفید پوشی کے ساتھ گزارا کرنا،اپنے بچوں اور شوہر کے لیے رمضان کے تمام جمعة المبارک اور عید کے تینوں روز کے لیے نئے کپڑے بنانے مگر جیسے اپنے بنانے بھول گئی ہوں، وہ گویا ہمارے جسم پہ نئے کپڑے دیکھ کر ہی محسوس کرلیتی تھیں کہ انہوں نے نیا جوڑا پہنا ہے۔

جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو میں نے اس پہ احتجاج کرنا شروع کیا لیکن وہ کہتیں بیٹا مجھے کیا کرنا ہے نئے کپڑوں کا؟۔ میں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ کام کرنا شروع کیا تو موسم گرما اور سرما میں امی جی کے لیے ایک ایک سوٹ لازمی لاتا، وہ دیکھنے میں ناراض دکھائی دیتیں لیکن آنکھوں میں خوشی کی ایک چمک ہوتی۔

ماتھے پہ پیار کر کے کہتیں سب کی شادیاں کر کے ان کو اپنے اپنے گھروں میں بھیج کر میں اپنے شہری لالے کے ساتھ رہوں گی۔ آج ان ہی کی دعاؤں سے میرا اپنا گھر ہے جہاں سب کچھ ہے لیکن امی جی نہیں، ہر قدم پہ احساس ہوتا ہے کہ آج امی جی ہوتیں تو کتنا خوش ہوتیں۔۔ کیسے اپنے پوتے پوتیوں کو دیکھ کر نچھاور ہوتیں، ہم ان کی خدمت کرتے۔

زندگی میں اگر ریوائنڈ یا پاز کا بٹن ہوتا تو شاید میں ریوائنڈ کر کے اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کے لیٹے ہوئے وقت کو روک دیتا تاکہ وہ ٹھنڈی چھاؤں کبھی سر سے دور نہ ہوتی لیکن ایسا کوئی بٹن ہی نہیں۔

اس لیے بس دعا کر سکتے ہیں کہ اے اللہ میری ماں کے ساتھ ایسا اچھا سلوک کرنا جیسے انہوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا، آمین

Comments are closed.