۔18۔لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں

شمشادمانگٹ

ملک میں اس وقت انصاف کی فراہمی کا ”سٹیرائیڈ“ نظام چل رہا ہے ۔عملی طورپر انتظامی مشینری اورماتحت عدالتیں عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی میں مکمل طورپر ناکام ہو چکے ہیں۔ بڑھتے ہوئے ظلم اور ناانصافی نے عوام کو ”ازخود نوٹس“ کے تحت قتل عام پر مجبور کردیا ہے ۔ لاہور میں پے درپے عدالتی احاطہ میں ہتھکڑیوں میں جکڑے ملزمان کو بے دردی سے قتل کرکے ملزمان نے مرضی کا ”انصاف“ حاصل کرلیا ۔ اسی طرح راولپنڈی کچہری میں بھی ”خودروانصاف“ کے حصول کی ایک واردات میں ملزم اور قاتل دونوں مارے گئے۔
فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کا اب براہ راست بیڑہ سپریم کورٹ نے اٹھا رکھا ہے۔ حکومتیں اورعدالتیں ملکر عوام کو بہترین نظام کی فراہمی کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہیں البتہ حکومتوں کو یہ دکھ ضرور ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان وہ کام کررہے ہیں جو ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان کو گلہ یہ ہے کہ ایگزیکٹو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے تیار ہی نہیں اس لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے عوام کی”آس“ کی ڈور کو برقرار رکھنے کے لئے ازخود نوٹس کا استعمال پہلے سے زیادہ کردیا ہے۔
انصاف کے ”سٹیرائیڈ“ نظام سے مجھے راولپنڈی میں پولن الرجی کے لئے فروخت ہونیوالی ایک جادو کی ”پڑیا“ یاد آتی ہے ۔ یہ پڑیا اب بھی پہلے سے زیادہ زور شور سے فروخت ہورہی ہے اس کا کمال یہ ہے کہ خواہ کتنی ہی بدترین الرجی نے آپ کو گھیر رکھا ہو صرف ایک جادو کی پڑیا آپ کو نارمل کردیتی ہے ۔
شروع شروع میں جادو کی ایک ہی پڑیا سب ”دکھ“ دور کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے لیکن دو تین ماہ کے بعد الرجی سے بچنے کے لئے صبح و شام اس ”جادوئی پڑیا“ کا سہارا لینا پڑتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور کارکردگی کم ہوتی چلی جاتی ہے ۔ کچھ عرصے کے بعداس پڑیا کے اثرات پورے جسم سے ظاہر ہوناشروع ہو جاتے ہیں۔ مسلسل استعمال سے گھٹنوں میں ”درد جگر“ محسوس ہونے لگتا ہے اور دل میں ”جوڑوں کا درد“ انگڑائیاں لینے لگتا ہے اور دماغ میں حرکت قلب بند ہونے کے خدشات جنم لینے لگ جاتے ہیں۔
عطائی حکیم نے راولپنڈی اور گردونواح کے عوام کو گرویدہ بنانے کے لئے اس میں ”سٹیرائیڈ“ میڈیسن کو پیس کر ڈال رکھا ہے اور عوام فوری اورسستے علاج کے لئے جوق درجوق اس عطائی حکیم سے ’فیض یاب“ ہو کر عمر بھر کا روگ حاصل کررہے ہیں ۔صحت مند انسان نارمل زندگی کے لئے اس دو نمبر دوائی کااستعمال کرتا ہے لیکن سال کے اندر اندر ہی صحت یابی کا ”سٹیرائیڈ“ نسخہ اس کے جسم کی چولیں ہلا کر اسے زندہ لاش میں تبدیل کردیتا ہے اور اس کے بعد جان لیوا کوئی بھی بیماری اس پر حملہ کرکے اس کو سفرآخرت پرروانہ کردیتی ہے ۔پاکستان کے تمام ہسپتالوں میں بھی نیم حکیم اورعطائی ڈاکٹر اسی طرح انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔
اسی تناظر میں اگر ہم اپنی حکومتی مشینری کی طرف دیکھیں تو ”نااہلیوں“ کی عظیم داستان اس کے ماتھے پر لکھی ہوئی نظرآتی ہے۔”سٹیرائیڈ“ نظام سے چھٹکارے کی بجائے حکمران بھی فوری طور پر ریلیف کے لئے اس کا سہارا لیتے ہیں ۔ چونکہ ہم قیادت سے محروم قوم ہیں اس لئے یہ معقولہ ہمارے حوالے سے ہی کسی نے درست کہا ہے کہ لیڈرز آئندہ نسلوں کے مستقبل کو سامنے رکھ کر پالیسی بناتے ہیں اور سیاستدان آئندہ الیکشن کو سامنے رکھ کر منصوبے بناتے ہیں۔
ہمیں سڑکیں اور پل تو بہت نظر آرہے ہیں لیکن صحت کے لئے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ہے ۔ موجودہ حکومت نے عوام کے بھرے مجمعے میں41 بڑے ہسپتالوں کے قیام کے ”کاغذی“ اعلان کرکے خوب داد حاصل کی لیکن عملی طورپر سارا پیسہ سڑکوں پر اس لئے لگا دیا گیا تاکہ عوام کو آئندہ الیکشن میں حکمرانوں کے نام کی تختیاں لگی ہوئی نظر آتی رہیں اور حکمرانوں کے اکاؤنٹس کو بھی ” قوت بخش“ کمیشن ملتا رہے۔
جہاں تک عدالتوں کی کارکردگی کا معاملہ ہے تو سرکاری اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ 18لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ ہیں لیکن مقدمات کی جلد سماعت اورانصاف کی نچلی سطح تک فراہمی کے لئے ان کے پاس بھی کوئی پالیسی نہیں ہے ۔
سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ مرحوم نے ” ازخود نوٹس“ کے ذریعے انصاف کی فراہمی کا جو ”نظریہ“ متعارف کرایا تھا اس کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عروج پر پہنچایا اور موجودہ چیف جسٹس نے ” ازخودنوٹسی“ انصاف کی مقبولیت کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی مرض کا مستقل علاج کرنے کی بجائے جب مریض کو جزوقتی ریلیف کے لئے ”دوائی“ کاعادی بنا دیا جاتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوائی کی مقدار بھی بڑھتی جاتی ہے اور مرض بھی بڑھتا جاتا ہے اورمریض کے دن کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
محترم چیف جسٹس جب خالد انور ایڈووکیٹ کے ساتھ جونیئر کے طورپر وکالت کیا کرتے تھے تو اس وقت کورٹ روم نمبر 1 میں کبھی کبھار ہی ”ہاؤس فل“ ہوا کرتا تھا لیکن اب تو ماشاء اللہ صبح سے شام تک ”ہاؤس فل“ ہوتا ہے ۔ گزشتہ روز اخبارات سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے لئے راقم کافی عرصہ کے بعد کورٹ نمبر1 میں داخل ہونے کے لئے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ 2005ء میں کورٹ روم نمبر ایک کے باہر موبائل رکھنے کے لئے ایک اہلکار اور ایک ٹرے ہوا کرتی تھی اب ماشاء اللہ اہلکاروں کی تعداد بھی تین گنا ہو چکی ہے اور موبائل رکھنے کے لئے برتن بھی دو گنا زیادہ کردیئے گئے ہیں۔
کورٹ روم نمبر ایک میں داخل ہوتے وقت مجھے اورمیرے ہم رکاب دوست اکرام بخاری کو عدالت کے اندر سے باہر نکلنے والے ہجوم کا کافی دیر انتظار کرنا پڑا ۔ عین اس وقت مجھے وہ منظر بھی یاد آگیا جب میں مولا جٹ فلم دیکھنے کے لئے بھائی کے ساتھ گیا تھا ۔ پہلے قطار میں کھڑے ہو کر بھائی نے مولا جٹ کے ٹکٹ لئے پھر سینما کے اندر سیٹوں پر بیٹھنے کے لئے شو ختم ہونے سے پہلے دروازے پر لائن میں کھڑا ہونا پڑا۔
مولا جٹ فلم بعد میں دیکھی لیکن اس فلم کا آخری ڈائیلاگ ہمیشہ کے لئے میرے ذہن میں بیٹھ گیا ۔ یہ ڈائیلاگ میں نے سینما ہاؤس کے گیٹ پر کھڑے ہو کر سنا اور یہ ڈائیلاگ مولا جٹ کے ”ازخود نوٹس“ سے متعلق تھا ۔یہ ڈائیلاگ کچھ اس طرح تھا ۔
”جدوں تک دھرتی تے لوکاں نوں انصاف نئیں مل جاندا، مولے جٹ جمندے رہن گے تے کھڑاک وی ہوندے رہن گے“۔یعنی انصاف کی فراہمی تک مولے جٹ بھی پیدا ہوتے رہیں گے اور وہ قتل و غارت بھی کرتے رہیں گے۔
پاکستان کی یہ شاہکار فلم تقریباً30سال پہلے سینماؤں کی زینت بنی لیکن یہ ہماری زندگی کے قریب ترین تھی اورآج بھی ہے ۔ ماضی میں بھی مولا جٹ ازخود نوٹس لے کر بدلہ لینے پر مجبور تھا اور آج بھی مولا جٹ کو انصاف کے لئے خود ہی ایکشن لینا پڑ رہا ہے ۔ تمام معتبر اداروں کو اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ایسا کیوں ہورہا ہے؟
میری محترم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے التجا یہی ہے کہ انصاف کی فراہمی کا مستقل نظریہ فراہم کریں وگرنہ ازخود نوٹس لے لیکر وہ خودبھی تھک جائیں گے اور انکے ساتھی بھی اکتا جائیں گے ۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ماضی میں بہت ہی دھیمے مزاج کے کم گو وکیل اور سیکرٹری قانون ہوا کرتے تھے ۔ انکی مثال پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق سے بھی دی جاسکتی ہے کیونکہ وہ وکٹ پر بھی اور پویلین میں بھی انتہائی ٹھنڈے مزاج کے مالک دکھائی دیتے تھے البتہ آسٹریلیا کیخلاف ٹیسٹ میچ میں صرف 56گیندوں پر سنچری بنا کر انہوں نے کرکٹ کے متوالوں کو حیران کردیا تھا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے انتہائی ٹھنڈا مزاج رکھنے والے چیف جسٹس بہت ”جارحانہ“ دکھائی دے رہے ہیں لیکن انصاف کی فراہمی کا ”سٹیرائیڈ نظام“ عوام کو کچھ نہیں دے پائے گا بلکہ مایوسی اور بڑھے گی ۔ سمبڑیال میں قتل ہونیوالے صحافی ذیشان بٹ کو انصاف کی فراہمی کے لئے پنجاب پولیس سوئی رہی اور ایک بار پھر چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لے کر ”سٹیرائیڈ“ طریقے سے انصاف کی فراہمی کا بندوبست کرنا پڑا حکومتی اداروں کے لئے بھی یہ باعث شرم ہے ۔

Comments are closed.